تاریخ متعین کئے بغیر سیرت النبی ﷺ کا پروگرام کروانا

تاریخ متعین کئے بغیر سیرت النبی ﷺ کا پروگرام کروانا

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ مکتبہ دیوبند کے امام صاحب اپنی مسجد میں ہر سال بغیر تعین تاریخ کبھی ماہ ربیع الاول میں اور کبھی ماہ ربیع الثانی میں اور کبھی جمادی الاولیٰ میں مقصد میلاد النبی کانفرنس کے عنوان سے پروگرام کرواتے ہیں ۔جس میں مکتبہ دیوبند کے نعت خواں،قراء کرام اور مقررین سیرت النبیﷺ کے موضوع پر اپنا کلام پیش کرتے ہیں، اس محفل وپروگرام میں نہ تو مروجہ صلاۃ وسلام پڑھاجاتا ہے اور نہ ہی کسی قسم کی بدعت اور خلاف سنت کوئی رسم کی جاتی ہے، جبکہ اس سے قبل اس مسجد میں تقریبا 24 سال تک مکتبہ بریلویت کا امام جشن میلاد النبیﷺ کے عنوان سے پروگرام کرواتا رہا،جس میں مکتبہ بریلویت کے نعت خواں اور مقررین آتے او رباقاعدہ مروجہ صلاۃ وسلام پڑھتے، چونکہ اس محلے میں اکثریت مکتبہ بریلویت کے لوگ مقیم ہیں، اس لیے ان کی ذہن سازی کے لیے اس پروگرام کا عنوان مقصد میلاد النبیﷺ کانفرنس رکھا جاتا ہے، لیکن اس پروگرام میں الحمدللہ کسی قسم کی شرک وبدعات کا ارتکاب نہیں ہوتا۔
آیا اس پروگرام کو جائز کہیں گے یا ناجائز؟ یہاں کے بعض نام نہاد علماء شدت سے کام لیتے ہوئے،اس پروگرام کو بدعت کہہ رہے ہیں، برائے کرم قرآن وسنت کی روشنی میں رہنمائی فرمائیں۔جزاک اللہ تعالیٰ فی الدارین۔

جواب

صورت مسئولہ میں اس پروگرام کو بدعت نہیں کہہ سکتے، جب تک کہ اس میں بدعات وخرافات یا رسم ورواج کا التزام نہ ہو، تاہم بہتر یہ ہے کہ جلسہ کا عنوان ہر سال ایک ہی نہ رکھیں، تاکہ لوگوں میں غلط فہمی نہ پھیلے۔
لما في الھندیۃ:
’’لا بأس بالجلوس للوعظ إذا اراد بہ وجہ اللہ تعالٰی‘‘.(کتاب الکراھۃ،الباب الخامس:۳۱۹/۵،رشیدیۃ).
وفي الدر:
’’التذکیر علی المنابر للوعظ والاتعاظ سنۃ الأنبیاء والمرسلین‘‘.(کتاب الحظر والإباحۃ،فصل في البیع:۲۲۱/۶،سعید)
وفي الاعتصام للشاطبي:
’’أنھا تشابہ الطریقۃ الشرعیۃ من غیر أن تکون في الحقیقۃ......ومنھا:التزام الکیفیات والھیئات المعینۃ.......واتخاذ یوم ولادۃ النبي صلی اللہ علیہ وسلم عیداً‘‘.(باب في تعریف البدع،ص:۲۵،دارالمعرفۃ).
وفي المشکاۃ:
’’عن عائشۃ رضي اللہ عنہا قالت: قال رسول اللہﷺ:من أحدث في أمرنا ھٰذا مالیس منہ فھو رد‘‘.(باب الاعتصام بالکتاب والسنۃ:۴۸/۱،دارالکتب).فقط.واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب.
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتویٰ نمبر:171/73