کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ کسی نے ایک مسجد کے لیے اپنی ذاتی زمین کی آمدنی وقف کی ہے، پھر لوگوں نے اس کے قریب دوسری مسجد بنادی، جس کی وجہ سے پہلی مسجد غیر آباد ہوگئی، واقف کا انتقال ہوچکا ہے، اب واقف کے بیٹے متولی ہیں۔
سوال یہ ہے کہ کیا اس پہلی مسجد کے لیے وقف آمدنی کو دوسری مسجد کے مصارف میں خرچ کرسکتے ہیں؟
ایک مسجد کی آمدنی دوسری مسجد میں خرچ کرنا اس وقت جائز ہے جب کہ پہلی مسجد ویران ہوجائے اور یہاں کارآمد ہونے کی امید نہ رہے، ورنہ جائز نہیں، لہذا صورت مسئولہ میں چوں کہ مذکورہ مسجد و یران ہوچکی ہے جیسا کہ بیان کیا گیا ہے، تو اس کی آمدنی دوسری مسجد میں خرچ کرنا جائز ہے، البتہ پہلی مسجد کو ویران کرنا گناہ سے خالی نہیں، اسے بھی آباد کیا جائے۔لما في الدر مع الرد:
’’وعن الثاني: ینقل إلی مسجد آخر بإذن القاضي (ومثلہ) في الخلاف المذکور (حشیش المسجد وحصرہ مع الاستغناء عنھما و) کذا (الرباط والبئر إذا لم ینتفع بھما، فیصرف وقف المسجد والرباط والبئر) والحوض (إلی أقرب مسجد أو رباط أو بئر) أو حوض‘‘.
’’(قولہ: وعن الثاني: إلخ) جزم بہ في الإسعاف حیث قال: ولو خرب المسجد وما حولہ وتفرق الناس عنہ، لا یعود إلی ملک الواقف عند أبي یوسف، فیباع نقضہ بإذن القاضي ویصرف ثمنہ إلی بعض المساجد.
(قولہ: ومثلہ حشیش المسجد إلخ) أي: الحشیش الذي یفرش بدل الحصر، کما یفعل في بعض البلاد، کبلاد الصعید کما أخبرني بہ بعضھم قال الزیلعي: وعلی ھذا حصیر المسجد وحشیشہ إذا استغنی عنھما یرجع إلی مالکہ عند محمد وعند أبي یوسف ینقل إلی مسجد آخر، وعلی ھذا الخلاف الرباط والبئر إذا لم ینتفع بھا، وصرح في الخانیۃ: بأن الفتوی علی قول محمد، قال في البحر: وبہ علم أن الفتوی علی قول محمد في آلات المسجد وعلی قول أبي یوسف في تأبید المسجد اھـ والمراد بآلات المسجد نحو القندیل والحصیر، بخلاف أنقاضہ لما قدمنا عنہ قریبا من أن الفتوی علی أن المسجد لا یعود میراثا ولا یجوز نقلہ ونقل مالہ إلی مسجد آخر .
(قولہ: وکذا الرباط)ھو الذي یبنی للفقراء .
(قولہ: إلی أقرب مسجد أو رباط إلخ) لف ونشر مرتب وظاھرہ أنہ لا یجوز صرف وقف مسجد خرب إلی حوض وعکسہ وفي شرح الملتقی: یصرف وقفھا لأقرب مجانس لھا‘‘.(کتاب الوقف، مطلب في ما لو خرب المسجد أو غیرہ: ٦/ ٥٥١: رشیدیۃ)
وفي المحیط البرہاني:
’’وفي الأجناس: إذا خرب المسجد ولا یعرف بانیہ وبنی أھل المسجد مسجدا آخر، ثم أجمعوا علی بیعہ واستعانوا بثمنہ في ثمن المسجد الآخر فلا بأس بہ. قال أبو العباس الناطفي في الأجناس فقیاسہ في وقف ھذا المسجد أنہ یجوز صرفہ إلی عمارۃ مسجد آخر إذا لم یعرف الواقف ولا وارثہ، فأما إذا عرف للمسجد بان فلیس لأھل المسجد أن یبیعوہ؛ لأنہ لما خرب ووقع الاستغناء عنہ عادۃ إلی ملک بانیہ أو ورثتہ، فلا یکون لأھلہ أن یبیعوہ وما ذکر من الجواب، أما لم یعرف بانیہ قول محمد لا قول أبي یوسف ہو مسجد أبدا، فلا یکون لأھل المسجد أن یبیعوہ، وعن أبي سلمۃ السہمي، قال محمد في مسجد إذا خرب فلا یعرف بانیہ فحکمہ حکم الأرض عامرۃ لا یعرف لھا رب، فیکون أمرھا إلی الإمام‘‘.(کتاب الوقف، فصل الحادي والعشرون: ٧/ ١٣٢: فاروقیہ).
فقط.واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب.
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتویٰ نمبر:174/349