کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ مدرس، خادم، مؤذن اور امام مسجد کو مال وقف سے کتنی رعایت دی جاسکتی ہے، مثلاً: میڈیکل اور الاؤنس وغیرہ۔
مدرس، خادم، مؤذن اور امام مسجد پر مالِ وقف سے بقدر کفایت خرچ کرنا جائز ہے۔
لما في رد المحتار:
’’(ویبدأ من غلتہ بعمارتہ) ثم ما ھو أقرب لعمارتہ.
وھو عمارتہ المعنویۃ التي ہي قیام شعائرہ.....وأعم للمصلحۃ کالإمام للمسجد، والمدرس للمدرسۃ یصرف إلیھم إلی قدر کفایتھم‘‘.(کتاب الوقف، مطلب: یبدأ بعد العمارۃ لما وأقرب إلیھا: ٦/ ٥٦٠، ٥٥٩: رشیدیۃ)
وفي البحر:
’’لو وقف علی مصالح المسجد یجوز دفع غلتہ إلی الإمام والمؤذن والقیم.
السادسۃ في بیان من یقدم مع العمارۃ وھو المسمی في زماننا بالشعائر ولم أرہ إلا في الحاوي القدسي ،قال والذي یبتدأ بہ من ارتفاع الوقف عمارتہ شرط الواقف أو لا ثم ماھو أقرب إلی العمارۃ وأعم للمصلحۃ کالإمام للمسجد والمدرس للمدرسۃ یصرف إلیھم إلی قدر کفایتھم‘‘.(کتاب الوقف: ٦/ ٣٥٦: رشیدیۃ).
فقط.واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب.
فتویٰ نمبر:100/ 174
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی