آپ علیہ السلام کی تاریخ پیدائش اور وفات کے متعلق تحقیقی قول

آپ علیہ السلام کی تاریخ پیدائش اور وفات کے متعلق تحقیقی قول

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ہمارے وزیرستان کے گاؤں،دیہاتوں میں بارہ ربیع الاول کے موقع پر بکریاں ،مرغیاں،سویاں وغیرہ صدقہ کرتے ہیں ،جبکہ ہر عمل کے لیے نیت محل ہے!
وزیرستان کے لوگوں کے بارے میں صدقات کرنے کی نسبت کی وجوہات ملاحظہ فرمائیں!
۱…لوگ کہتے ہیں آپﷺ اسی دن پیدا ہوئے اور اسی دن دنیا سے رحلت فرماگئے۔ اس لیے ہم صدقہ کرتے ہیں کہ یہ دن بارہ ربیع الاول ایک اعتبار سے ہمارے لیے باعث خوشی بھی ہے اور ایک اعتبار سے باعث حزن بھی ہے، جبکہ بعض لوگ کہتے ہیں کہ ہم ان صدقات کو آپﷺ کے پیچھے ایصال ثواب کرتے ہیں۔ جس طرح میت کے احباب میت کے لیے ایصال ثواب کرتے ہیں۔ جبکہ بعض لوگ کہتے ہیں کہ ہمیں اس دن کے حوالے سے کچھ بھی علم نہیں ہے،ہاں !یہ ہے کہ دیگر لوگ کہتے ہیں کہ یہ دن اچھا دن ہے ،اس دن میں صدقہ کرنا چاہیے تو صرف اسی بنیاد پر وہ کبھی صدقہ کرتے ہیں۔ اصل وجہ مفقود الحال ہے!اور جو لوگ اس دن خیرات یا صدقہ نہیں کرتے کسی بھی عذر کی بنیاد پر ،تو لوگ اس کو طعنہ دیتے ہیں۔
۲…کیا ۱۲؍ربیع الاول کو آنحضرت ﷺ کی پیدائش اور وفات کا ہونا قرائن مبرہنہ سے متحقق ہے؟ پورے سال میں ۱۲,ربیع الاول کے دن کو اس طرح تعین کرنا اصحاب،تابعین،یا اسلاف امت سے مروج چلا آرہا ہے یا نہیں؟اور اگر یہ عمل درست نہیں یا غیر مشروع ہے ،تو کیا یہ عمل بدعت کے زمرے میں آتا ہے یا نہیں؟
مذکورہ مسئلہ کے ہر پہلو کا مفصل ومدلل جواب دے کر تشفی فرمائیں!

جواب

اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ربیع الاول بابرکت مہینہ ہے کہ اس میں آنحضرتﷺ کی ولادت باسعادت ہوئی ہے، مگر کسی عمل کو کرنے کے لیے اس میں اپنی طرف سے دن متعین کرنا اور مخصوص طریقہ اپنانا بدعت اور احداث فی الدین ہے، جس کے لیے احادیث میں سخت وعیدیں آئی ہیں، اسی طرح آپﷺ کی پیدائش کے لیے دن متعین کرکے اس میں مختلف قسم کے افعال کرنا یہ صحابہ کرام ،تابعین اور تبع تابعین رضوان اللہ علیہم اجمعین میں سے کسی سے ثابت نہیں، بلکہ آغاز اسلام سے لے کر چھٹی صدی ہجری تک اس محفل میلاد کا پتہ نہیں چلتا،یہ بدعت   ۶۰۴؁ھ میں ایک بادشاہ مظفر الدین ابوسعید کوکبوری بن زین الدین کے حکم سے ایجاد ہوئی۔
نیز جس طرح ۱۲ ربیع الاول کو آپ علیہ السلام کی پیدائش ثابت نہیں،اسی طرح ۱۲ تاریخ کو آپ کی وفات ہونا بھی محلِ نظر ہے، بلکہ حسابی رو سے یہ بھی انتہائی مشکل ہے، آپ علیہ السلام کی تاریخ وفات میں اقرب إلی الصواب قول یکم ربیع الاول کا ہے۔(دیکھئے کشف الباری،کتاب المغازی،ص:668۔احسن الفتاویٰ:85/9۔سیرت مصطفٰی:172/3)
لما في التنزیل:
یاأیھا الذین آمنوا ادخلوا فی السلم کافۃ ولا تتبعوا خطوات الشیطان إنہ لکم عدو مبین».(سورۃ البقرۃ:208)»
وفي البخاري:
’’عن عائشۃ رضي اللہ عنہا قالت،قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم :من أحدث في أمرنا ھٰذا مالیس فیہ فھو رد‘‘.(کتاب الصلح،باب إذا اصطلحوا علی صلح جور فالصلح مردود،رقم الحدیث:2697،ص:440،دارإبن کثیر).
وفي الاعتصام للشاطبي:
’’أنھا تشابہ الطریقۃ الشرعیۃ من غیر أن تکون في الحقیقۃ......ومنھا:التزام الکیفیات والھیئات المعینۃ.......واتخاذ یوم ولادۃ النبي صلی اللہ علیہ وسلم عیداً‘‘.(باب في تعریف البدع،ص:۲۵،دارالمعرفۃ).
وفي اقتضاء الصراط المستقیم:
وکذلک ما یحدثہ بعض الناس،إما مضاھاۃ للنصاریٰ في میلاد عیسیٰ علیہ السلام وإما محبۃ للنبي صلی اللہ علیہ وسلم ، وتعظیماً.واللہ قد یثیبھم علی ھذہ المحبۃ والاجتھاد،لا علی البدع، من اتخاذ مولد النبي صلی اللہ علیہ وسلم عیداً،مع اختلاف الناس في مولدہٖ .فإن ھذا لم یفعلہ السلف، مع قیام المقتضي لہ وعدم المانع منہ لو کان خیراً،ولو کان ھذا خیراً محضاً أو راجحاً لکان السلف رضي اللہ عنھم أحق بہ منا، فإنھم کانوا أشد محبۃ لرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وتعظیماً لہ منا، وھم علی الخیر أحرص‘‘.(فصل في تعظیم یوم لم تعظمہ الشریعۃ أصلاً،ص:۳۰۶،۳۰۷،نواز مصطفٰی الباز مکۃ مکرمۃ).فقط.واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب.
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتویٰ نمبر:171/326