بیویوں کا اپنے شوہروں سے حج کروانے کا مطالبہ کرنا

بیویوں کا اپنے شوہروں سے حج کروانے کا مطالبہ کرنا

سوال

كىا فرماتے ہیں علمائے کرام اس  مسئلے کے بارے میں کہ کیا غیر شادی شدہ بہنوں کا بھائیوں سے یہ مطالبہ کرنا (اور بیوی کا شوہر سے مطالبہ کرنا) کہ انہیں حج یا عمرہ کروائیں، کیا یہ شرعًا جائز ہے؟ جب کہ بڑے بھائی نےانہیں رہائش کے لئے ایک الگ گھر دیا ہو اور بہنوں کا یہ کہنا ہو کہ گھر ابھی بھی بھائی کا ہے اگر چہ قانونًا بہنوں کے نام ہو، یعنی بڑے بھائی کا احسان پہلے ہی مختلف شکلوں میں موجود ہو؟

جواب

بہنوں کا اپنے بھائیوں اور بیوی کا اپنے شوہر سے حج یا عمرہ کرانے کا مطالبہ کرنا شرعًا درست نہیں، کیوں کہ شریعت نے بھائیوں اور شوہروں پر نان ونفقہ اور رہائش تو واجب کیا ہے؛ لیکن حج یا عمرہ کرانا ان پر لازم نہیں کیا، تو بہنوں اور بیویوں کا اپنے  بھائیوں اور شوہروں سے حج اور عمرہ کا مطالبہ کرنا جائز نہیں۔
لما في التنزيل:
˒˒لا تقنطوا من رحمة الله˓˓.(سورة الزمر:53)
وفي مختصر القدوري:
’’النفقة واجبة للزوجة على زوجها مسلمة كانت أو كافرة، إذا سلمت نفسها في منزله، فعليه نفقتها وكسوتها وسكناها‘‘.(كتاب النفقات: 407،معهد عثمان بن عفار رضي الله عنه)
وفي التنوير:
’’شرعًا:(هي الطعام والكسوة والسكنى) (ونفقة الغير تجب على الغير بأسباب ثلاثة: زوجية، وقرابة، وملك) (فتجب للزوجة) (على زوجها) (ولو صغيرًا) (لا يقدر على الوطء) (أو فقيرًا ولو) (كانت مسلمة أو كافرة أو كبيرة أو صغيرة تطيق الوطء) (فقيرة أو غنية موطوءة أو لا) (إن أمسكها في بيته عند الثاني.....‘‘.(كتاب الطلاق، باب النفقة: 5/ 283۔286،رشيدية)
وفي شرح المجلة:
يشترط أن يكون المدعى به معلوما، فيلزم بيان جنسه وقدره بالإجماع لأن الغرض الزام المدعى به معلومًا، فيلزم جنسه وقدره بالإجماع لأن الغرض الزام المدعى عليه عند اقامة البينة ولا الزام فيما يعرف جنسه وقدره‘‘.(الكتاب الرابع عشر: في الدعوى،الباب الاول في شروط الدعوى....، 911/2،دار الكتب العلمية).فقط.واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب.

فتویٰ نمبر:173/195

دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی