ناگوار حالات میں تبلیغ میں جانا کیسا ہے؟

ناگوار حالات میں تبلیغ میں جانا کیسا ہے؟

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ہم 6 بھائی ہیں، جس میں  ایک تخصص فی الفقہ پڑھتا ہے اور ایک اسلام آباد میں ڈاکٹر عبد القدیر کے ادارہ میں پڑھتا ہے اور تین بھائی مع اہل وعیال کے بچوں کی تعلیم کی وجہ سے کراچی میں رہتے ہیں اور وہاں مزدوری بھی کرتے ہیں اور ایک بھائی گاؤں میں رہتے ہیں اور گھر کی ذمہ داری اس نے بخوشی قبول کی ہوئی ہے اور اس کے ساتھ والدہ اور اس کی بیوی رہتی ہیں، اب جو گھر اور زمین وغیرہ کا ذمہ دار بھائی ہے اچانک تبلیغ میں جانے کے لیے تیار ہوا، پہلے چار ماہ اور چلہ لگا چکا ہے ،کہتا ہے کہ: سالانہ چلہ لازم ہے میں ضرور جاؤں گا۔ والدہ اور اس کی بیوی ناراض ہیں اور والدہ اجازت نہیں دیتی گھر میں پانی کی بھی سہولت نہیں ہے، پانی باہر سے لاناپڑتا ہے جب اس کو سمجھایا گیا کہ سالانہ چلہ لازم نہیں ہے گھر کے حالات انتہائی سنگین ہیں آپ دوسرے موقع پر جانا جب حالات موافق ہوں ہم کوئی ترتیب بنا لیتے ہیں ایک دو ماہ میں آپ کو اجازت دیں گے، تو وہ جوابًا کہتا ہے: حالات کو دیکھنا صحیح نہیں ہے ،حالت اللہ پاک خود درست کردینگے تبلیغ سے روکنا ابولہب کا کام ہے یعنى وہ کہتا ہے کہ ہر حال میں تبلیغ میں جانا چاہیےاور وہ غصہ کے حالت میں مطلقا علماءکرام کو ناگوار الفاظ بولتا رہتا ہے۔
اب پوچھنا یہ ہے کہ ایسے حالات میں تبلیغ میں جانا درست ہے اور حالات کو اللہ میاں کے سپرد کرنا کیسا ہے؟

جواب

واضح رہے کہ حقوق واجبہ کو تلف کر کے تبلیغ میں جانے کی اجازت نہیں، بیوی بچوں کے نفقہ کا انتظام واجب ہے، والدہ اگر جسمانی خدمت کی محتاج ہوں، تو ان کی جسمانی خدمت بھی لازم ہے، اگر حقوق واجبہ کا انتظام ہو اور جسمانی خدمت کی بھی حاجت نہ ہو، تو پھر کسی کو منع کرنے کا حق نہیں، منع کرنے کے باوجود بھی چلا گیا تو گناہ گار نہ ہوگا۔
لما في الدر المختار:
’’ونفقة الغير تجب على الغير بأسباب ثلاثة: زوجية، وقرابة وملك... فتجب للزوجة على زوجها... وتجب النفقة بانواعها على الحر لطفله الفقير الحر‘‘.(كتاب النكاح، باب النفقة: 572/3،ايچ ايم سعيد)
وفي الرد:
’’لو أراد الخروج الى الحج، وكره ذلك قالو: فإن استغنى الأب عن خدمته فلا بأس، وإلا فلا يسعه الخروج، وفي بعض الروايات لا يخرج إلى الجهاد إلا باذنهما ،ولو أذن أحدهما فقط، لا ينبغى له الخروج، لأن مراعاة حقهما فرض عين، والجهاد فرض كفاية‘‘. (كتاب الحظر والإباحة، فصل في البيع: 408/6، ايچ ايم سعيد).فقط.واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب.
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتویٰ نمبر:176/198