’’اللھم بارک لنا فی رجب وشعبان‘‘ دعا کی تحقیق

’’اللھم بارک لنا فی رجب وشعبان‘‘ دعا کی تحقیق

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ رجب کا چاند دیکھ کر پڑھی جانے والی دعا’’اَللّٰهُمَّ بَارِكْ لَنَا فِيْ رَجَبَ وَشَعْبَانَ وَبَلِّغْنَا رَمَضَانَ‘‘سنداً صحیح ہے یا ضعیف؟ اور اس کی نسبت آپ صلی اللہ علیہ کی طرف کرنا کیساہے؟

جواب

اصل مسئلہ کو سمجھنے سے پہلے بطورِ تمہید کے دو باتوں کاجاننا ضروری ہے۔
۱…اگر کسی حدیث کا ضعیف شدید ہو یا وہ حدیث موضوع ہو ،تو ایسی حدیث کے بارے میں یہ نہیں کہاجاسکتا کہ یہ حدیث ہے اور یہ حضورﷺ کا قول یا فعل ہے،اسی طرح ایسی حدیث کو عوام کی محفل میں سنانا بھی درست نہیں۔
۲…حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے ترغیب وترہیب میں وارد ضعیف حدیث پر عمل کرنے کے لیے تین شرائط بیان کی ہیں:

    • شدید ضعیف نہ ہو۔
    • وہ ضعیف حدیث عام اصول اور قاعدے کے تحت داخل ہو۔
    • عمل کے وقت اس کے ثبوت کا اعتقاد نہ رکھاجائے، تاکہ یہ اللہ کے رسولﷺ کی طرف منسوب نہ ہو۔

سوال میں مذکور روایت حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مسند احمد بن حنبل،شعب الایمان،المعجم الکبیر ،عمل الیوم واللیلۃ لابن السني، اور دیگر کتب میں ’’زائدۃ بن أبي الرقاد عن النمیري‘‘کے طریق سے مروی ہے، اس میں دو راوی ضعیف ہیں، ایک ’’زیاد بن عبداللہ النمیري‘‘ جس پر ائمہ(یحيیٰ بن معین، علامہ ذہبی،حافظ ابن حجر رحمہم اللہ وغیرہ) نے ہلکے درجے کی جرح کی ہے، اور اس روایت میں دوسرا متکلم فیہ راوی’’زائدۃ بن أبي الرقاد‘‘ ہے، جس پر ائمہ حدیث(امام بخاری، امام نسائی،امام ابو حاتم رحمہم اللہ اور دیگر حضرات) نے سخت کلمات جرح (منکر الحدیث، یروي المناکیر عن المشاھیر) کہے ہیں، یہی وجہ ہے کہ ابو شامہ رحمہ اللہ تعالیٰ نے حافظ ابن عساکر کے حوالے سے اس حدیث کو منکر کہا ہے، لہٰذا سنداً تو یہ روایت قابل بیان معلوم نہیں ہوتی۔
غرض مذکورہ روایت کو بطور دعا پڑھنے میں تو کوئی حرج نہیں، لیکن آپﷺ کی طرف منسوب کر کے اسے بیان کرنا(اس کے منکر ہونے کی وجہ سے) درست معلوم نہیں ہوتا۔ لہٰذا آُﷺ کے انتساب سے بیان کرنے سے احتراز کیا جائے۔
لما في قول البدیع في الصلاۃ علی الحبیب الشفیع:
’’قال شیخ الإسلام أبو زکریا النووي-رحمہ اللہ- في الأذکار قال العلماء من المحدثین والفقھاء وغیرھم یجوز ویستحب العمل في الفضائل والترغیب والترھیب بالحدیث الضعیف مالم یکن موضوعا وأما الأحکام کالحلال والحرام والبیع والنکاح والطلاق وغیر ذلک فلا یعمل فیھا إلا بالحدیث الصحیح أو الحسن إلا أن یکون في احتیاط في شيئ من ذلک کما إذا أورد حدیث ضعیف بکراھۃ بعض البیوع أو الأنکحۃ، فإن المستحب أن یتنزہ عنہ ولکن لایجب انتھم، وخالف أبي العربي المالکي في ذلک ،فقال: إن الحدیث الضعیف لایعمل بہ مطلقا وقد سمعت شیخنا مراد یقول وکتبہ لي بخطہ أن شرائط العمل بالضعیف ثلاثۃ، الأول :متفق علیہ، أن یکون الضعیف غیر شدید فیخرج من أنفرد من الکذابین والمتھمین بالکذب ومن فحش غلطہ.الثاني: أن یکون مندرجا تحت أصل عام فیخرج مایخترع بحیث لایکون لہ أصل أصلا. الثالث: أن لایعتقد عند العمل مع ثبوتہ لئلا ینسب إلی النبي صلی اللہ علیہ وسلم مالم یقلہ قال: والأخیران عن ابن السلام وعن صاحبہ ابن دقیق العید والأول نقل العلائي الاتفاق علیہ‘‘.(الباب:خاتمۃ، ص:255،دارالریان)
وفي الفتح المبین شرح الأربعین:
’’ قدا اتفق العلماء علی جواز العمل بالحدیث الضعیف في فضائل الأعمال ؛لأنہ إن کان صحیحا في نفس الأمر..... فقد أعطی حقہ من العمل بہ، وإلا..... لم یترتب علی العمل بہ مفسدۃ تحلیل ولاتحریم، ولاضیاع حق للغیر‘‘. (باب:ذکر بعض من صنف أربعین حدیثا: 109/1، دارالمنہاج).
وفي المعجم الأوسط:
’’لایروی ھذ االحدیث عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم إلا بھذا الإسناد، تفرد بہ: زائدۃ بن أبي الرقاد‘‘. (رقم الحدیث:3939، 85/3،محمد حسن اسماعیل، دارالکتب العلمیۃ).فقط. واللہ تعالٰی اعلم بالصواب.
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتویٰ نمبر:182/146