ضعیف شدید و موضوع حدیث کا حکم،جانوروں کی جگالی کا حکم

ضعیف شدید و موضوع حدیث کا حکم،جانوروں کی جگالی کا حکم

سوال

کیا فرماتے ہیں علماء کرام اس بارے میں کہ۱۔ حلال وحرام جانوروں کی جگالی کا کیا حکم ہے، پاک یا نجس؟ جب کہ ہندیہ میں ہے: جرة کل شيء سرقینہ۔

۲۔ ضعیف اور شدید ضعیف حدیث کا کیا مطلب ہے، ضعیف اور شدید ضعیف موضوع احادیث کو کس جگہ کن شرائط سے بیان کرسکتے ہیں؟جواب دے کر عند اللہ مأجور ہوں۔

جواب

۱۔ جانور حلال ہو یا حرام اس کی جگالی نجس ہے۔

۲۔ ضعیف حدیث: محدثین کی اصطلاح میں اس حدیث کو کہا جاتا ہے، جس میں صحیح یا حسن کی تمام شرائط یا بعض شرائط نہ پائی جائیں، پھر اس کی بہت سی اقسام ہیں، جیسے: موضوع، منکر اور متروک وغیرہ۔

اور شدید ضعیف: اس حدیث کو کہتے ہیں، جسے صرف واضع (حدیثیں گھڑنے والا) یا منہم بالوضع، کذاب یا متہم بالکذب یا فاحش غلط وغیرہ نقل کرے، موضوع اور شدید ضعیف حدیث کا بیان کرنا اور اس پر عمل کرنا جائز نہیں، خواہ اس کا تعلق فضائل اعمال اور ترغیبات وترھیبات سے ہو یا احکام شرعیہ سے، حدیث کے وضع کا علم ہونے کے باوجود اسے بیان کرنا ”کذب علی النبي صلی اللہ علیہ وسلم متعمدًا“ میں داخل ہے، جس کے بارے میں دخول جہنم جیسی سخت وعید آئی ہے، البتہ اگر حدیث کے شدّتِ ضعف اور وضع کو بھی بیان کردیا جائے، اور تردیداً ذکر کیا جائے تو جائز ہے۔

پھر حدیث میں اگر ضعف شدید نہ ہو تو اسے بیان کرنا، اور اس پر عمل کرنا راجح قول کے مطابق چند شرائط کے ساتھ جائز ہے۔

۱۔ حدیث کا تعلق فضائل اعمال اور ترغیبات وترھیبات سے ہو، احکام شرعیہ میں حدیث ضعیف کا اعتبار نہیں، إلا یہ کہ اس کو تلفی بالقبول حاصل ہو، کحدیث: (لا وصية لوارث) یا وہ موضع احتیاط میں ہو، کما ذكره ابن عابدین في رد المحتار (1/358، 359) من كراهة استعمال الماء المشمس بشروطه عملاً بخبر عائشة - رضي الله عنها - مع ضعفه؛ لما فيه من الاحتیاط، وترك ما لا یریب. (الأجوبة الفاضلة: 51، 52، المطبوعات الإسلامیة)

۲۔ وہ حدیث کسی اصل عام کے تحت مندرج ہو، جس کی کوئی اساس شریعت میں نہ ہو اس کا اعتبار نہیں۔

۳۔ اس پر عمل کے وقت اس کے ثبوت کا اعتقاد نہ رکھا جائے، بلکہ احتیاط کا قصد کیا جائے۔فقط واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی

فتوی نمبر: 77/409