گود میں لی ہوئی لڑکی اور لڑکے کا ایک گھر میں رہنا

گود میں لی ہوئی لڑکی اور لڑکے کا ایک گھر میں رہنا

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ میری ایک بیٹی جو 4سال پہلے میں نے 13سال کی عمر میں اپنی بہن کو گود دیا تھا،اب میری  بہن اور ان کے شوہر کے تعلقات خراب ہونے کی وجہ سے میری بہن 4ماہ سےمیرے بھائیوں کے گھر پر ہیں ،  کیوں کہ میرے بہنوئی ان کو طلاق کی دھمکیاں دے رہے تھے۔ ان کا ایک جو ان بیٹا ہے اس کی شادی ایک سال پہلے کی تھی، اس کے بعد میرے بہنوئی میری بہن کے دشمن بن گئے، بار بار ان کوطلاق کی دھمکیاں دینا شروع کردی ،اب میری بہن اپنے بھائیوں کے گھر رہ رہی ہیں ۔
۱…اب پوچھنا یہ ہے کہ کیا میری بیٹی اس کنڈیشن میں اس گھر میں رہ سکتی ہے کیوں کہ وہ 17سال کی ہے۔اس بات کی شرعی حقیقت کیا ہے؟ کیا شرعی طور پر وہاں رہنا جائز ہے۔
۲… کیا میرے بہنوئی اور ان کی بہو جو کہ میری بہن کی بھی بہو ہے ،میری بہن کی غیر موجودگی میں اس بہو کا سسر کے ساتھ اس گھر میں رہنا اس کی کیا شرعی حیثیت ہے؟ کیا وہ لوگ بغیر ساس کے ایک جگہ رہ سکتے ہیں، کیوں کہ میرے بہنوئی بیٹے کو الگ نہیں  کرنا چاہتے اور میری بہن کو بار بار طلاق کی دھمکیاں بھی دیں،  جس کی وجہ سے وہ گھر چھوڑ چلی گئی ہیں، کیوں کہ بہو کی وجہ میرے بہنوئی میری بہن کے دشمن  بنے ہوئے ہیں۔
وضاحت: یہ لڑکا اور لڑکی مذکور شخص کے اپنے سگے بچے نہیں ہیں، مانگ کر پالے ہوئے ہیں۔

جواب

۱…صورت مسئولہ میں مذکورہ لڑکی نہ اس شخص  کی حقیقی بیٹی ہے اور نہ اس لڑکے کی حقیقی بہن، اس لیے شرعا اس لڑکی کا وہاں بغیر پردے کے رہنا جائز نہیں۔
۲…اس صورت میں بھی چوں کہ یہ شخص  اس بہو کا حقیقی سسر نہیں ہے، اس لیے اس کے ساتھ بغیر پردے کے رہنا جائز نہیں۔
لما في التنزيل:
«وما جعل أدعياءكم ذلكم قولكم بأفواهكم».وقال الله تعالى: «أدعوهم لآبائهم هو أقسط عند الله».(سورة الاحزاب: 4،5)
وفي أحكام القرأن:
”فيه إباحة اطلاق اسم الأخوة وحظر اسم الأبوة من غير جهة النسب“.(531/3: قديمي)
وفي روح المعاني:
’’﴿ادعوهم لآبائهم﴾ أي: انسبوهم إليهم وخص بهم... ويعلم من الآية أنه لا يجوز انتساب الشخص إلى غير أبيه، وعد ذلك بعضهم من الكبائر‘‘. (194/21: مؤسسة الرسالة)
وفي صحيح البخاري:
عن سعيد رضي الله عنہ قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: ”من ادعى إلى غير أبيه فالجنة عليه حرام“.(كتاب الفرائض، باب من ادعى إلى غير أبيه:1168/2:دار السلام)
وفي الدر:
’’(وينظر الرجل من الرجل)...(ومن عرسه وأمته الحلال)...(ومن محرمه) هي من لا يحل لہ نكاحها أبدا بنسب أو سبب ولو بزنا (إلى الرأس والوجه).
وفي الأشباه: الخلوة بالأجنبية حرام، إلا لملازمة مديونة هربت، ودخلت خربة أو كانت عجوزا شوهاء، أو بحائل، والخلوة بالمحرمة مباحة، إلا الأخت رضاعا، والصهرة الشابة.
وفي الرد:والمسألة مفروضة هنا في أمها، والعلة تفيد أن الحكم كذلك في بنتها ونحوها كما لا يخفى‘‘.(كتاب الحظر والإباحة، فصل في النظر والمس: 9/ 608،607:دار المعرفة).فقط.واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب.
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتویٰ نمبر:9-10 /177