طلاق یا خلع کے بعد اولاد کی پرورش کا حقدار کون ہے؟

طلاق یا خلع کے بعد اولاد کی پرورش کا حقدار کون ہے؟

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام مندرجہ ذیل  مسئلہ کے بارے میں کہ میاں بیوی کے درمیان طلاق یا خلع کے بعد اولاد کی پرورش کا حق کس کو حاصل ہے ،جب کہ والد غیر شرعی امور کا مرتکب ہو، مثلاً: ترکِ صلوۃ وغیرہ اور اولاد بھی والد کے قریب نہ جانا چاہتی ہو اور بچوں کی والدہ بغرضِ حسنِ تربیت بچوں کو اپنے پاس رکھنا چاہتی ہو؟

جواب

صورت مسئولہ میں بچی کی پرورش کا حق شرعا والد کو حاصل ہے، اس لیے کہ والد بچی کی حفاظت، تعلیم اور تربیت اچھی طرح کرسکتا ہے، لیکن اگر کسی وجہ سے والد قابل اعتماد نہ رہے، اور والد کے پاس بچی کے ضائع ہونے یا اخلاق کے خراب ہونے کا اندیشہ ہو ،توو الدہ اپنے پاس رکھ سکتی ہے، خصوصا جب کہ والد غیر شرعی امور کا مرتکب ہو، اور فاسق بھی ہو، اور بیوی دین دار ہو۔
لما في الدر مع شرحہ:
’’(والأم والجدۃ) لأم أو لأب (أحق بھا) بالصغیرۃ (حتی تحیض) أي تبلغ........في ظاھر الروایۃ......(وغیرھما أحق بھا حتی تشتہي) وقدر بتسع، وبہ یفتی، وبنت إحدی عشرۃ مشتہاۃ اتفاقا‘‘.
وفي الشامیۃ:
’’فینبغي للمفتي أن یکون ذا بصیرۃ؛ لیراعي الأصلح للولد؛ فإنہ قد یکون لہ قریب مبغض لہ، یتمنی موتہ......فإذا علم المفتی أو القاضي شیأا من ذلک، لا یحل لہ نزعہ من أمہ؛ لأن مدار أمر الحضانۃ علی نفع الولد، وقد مر عن البدائع: لو کانت الإخوۃ والأعمال غیر مأمونین علی نفسھا أو مالھا لا تسلم إلیھم.(کتاب الطلاق، باب الحضانۃ: ٥/ ٢٧٥، ٢٧٤: رشیدیۃ)
وفي البحر الرائق:
’’ومتی کانت الجاریۃ بکرا یضمھا إلی نفسہ، وإن کان لا یخاف علیھا الفساد إذا کانت حدیثۃ السن، أما إذا دخلت في السن واجتمع لھا رأي، وعقلت، فلیس للأولیاء حق الضم، ولھا أن تنزل حیث أحبت حیث لا یتخوف علیھا، وإن کانت ثیبا مخوفا علیھا‘‘.(کتاب الطلاق، باب الحضانۃ: ٤/ ٢٨٩: رشیدیۃ).فقط.واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتویٰ نمبر: 175/337