دوران عدت ملازمت کا حکم

دوران عدت ملازمت کا حکم

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ میری دوست کی عمر 53 سال ہے اور بے اولاد ہے ،اس کے شوہر نے اسے طلاق دے دی ہے جس ادارے میں وہ ملازمت کرتی ہے ،وہاں عدت کی چھٹیاں ملتی ہیں، لیکن عدت کے بعد جوائننگ کو عذاب بنادیتے ہیں ، بلاوجہ کے چکر لگواتے ہیں دوسرا یہ کہ اپنی کولیگ کی زبانوں سے بچنےاور اپنی بے عزتی کو چھپانے کے لیے اپنی عدت کے دنوں کو خفیہ رکھ کر پردے میں رہ کر پوری کرسکتی ہے۔
ملازمت کے بعد کا وقت خاموشی کے ساتھ اپنے گھر میں رہ کر عدت گزارسکتی ہے، دوران عدت اپنی ملازمت کرسکتی ہے، زمانے کے تیروں سے بچنے کے لیے اپنے ایام عدت کو خفیہ رکھ سکتی ہے۔

جواب

واضح رہے کہ معتدہ مطلقہ عورت (جس پر طلاق کی وجہ سے عدت واجب ہوگئی ہو) پر لازم ہے کہ عدت کے ایام اپنے شوہر کے گھر پر رہ کر ہی گزارے اور بلا ضرورت شدیدہ گھر سے نکلنا حرام ہے۔
لہٰذا صورت مسئولہ میں مذکورہ عورت جس ادارے میں ملازمت کررہی ہے، وہاں چونکہ عدت گزارنے کے لیے چھٹیاں مل جاتی ہیں، اس لیے چھٹی لے کر گھر پر رہے اور اپنی عدت مکمل کرے، اور پھر عدت کے بعد کہیں کوشش کرلے۔
لما في التنویر مع الدر:
’’(وتعتدان) أي: معتدۃ طلاق وموت (في بیت وجبت فیہ) ولایخرجان منہ (إلا أن تخرج، أو ینھدم المنزل أو تخاف) إنھدامہ أو (تلف مالھا، أو لاتجد کراء البیت) ونحو ذلک من الضرورات‘‘. (کتاب الطلاق، مطلب الحق أن علی المفتی أن ینظر في خصوص الوقائع: 229/5، رشیدیۃ)
وفي البدائع:
’’(أحدھما): أنہ لایجوز للمعتدۃ من طلاق الخروج من منزلھا أصلاً باللیل ولا بالنھار..... ومنھا: حرمۃ الخروج من البیت لبعض المعتدات دون بعض، وجملۃ الکلام في ھٰذا الحکم أن المعتدۃ لایخلو إما أن تکون معتدۃ من نکاح صحیح، وإما أن تکون معتدۃ من نکاح فاسد، ولایخلو إما أن تکون حرۃ.....مطلقۃ أو متوفی عنھا زوجھا، والحال حال الإختیار أو حال الإضطرار، فإن کانت معتدۃ من نکاح صحیح وھي حرۃ مطلقۃ بالغۃ عاقلۃ مسلمۃ، والحال حال الإختیار فإنھا لاتخرج لیلاً ولا نھاراً، سواء کان الطلاق ثلاثاً أو بائناً أو رجعیاً...... وأما في حالۃ الضرورۃ، فإن اضطرت إلی الخروج من بیتھا بأن خافت سقوط منزلھا أو خافت علی متاعھا، أو کان المنزل بأجرۃ ولاتجد ماتؤدیہ في أجرتہ في عدت الوفات، فلا بأس عند ذلک أن تنتقل، وإن کانت تقدر علی الأجرۃ لاتنتقل‘‘. (کتاب الطلاق: فصل في أحکام العدۃ: 4/ 447-451، دارالکتب العلمیۃ بیروت).فقط.واللہ تعالٰی اعلم بالصواب.
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتویٰ نمبر:278/ 177