بیوی کو 3600 مرتبہ طلاق دینے کا حکم

بیوی کو 3600 مرتبہ طلاق دینے کا حکم

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام درج ذیل  مسئلہ کے بارے میں کہ ہماری شادی 10 سال رہی ان دس سالوں میں ہماری دو بیٹیاں ہیں، میرے شوہر نے شادی کے کچھ عرصہ بعد ہی مجھ سے لڑائی جھگڑے شروع کردیے تھے، اور ہر دفعہ ایک ہی بات کہتے کہ میں تیرے ساتھ نہیں رہنا چاہتا، میں نے تجھے طلاق دی، اور پھر غصہ ٹھنڈا ہوجاتا تو رجوع کرلیتے، ان دس سالوں میں انہوں نے تقریبا 3600 سے زیادہ دفعہ یہی کہا کہ میں نے تجھے طلاق دی اور پھر معافی تلافی کی اور رجوع کرلیا۔
اب تقریبا7 سال پہلے و ہ مجھے چھوڑ کر دوسری شادی کرکے چلے گئے ہیں، جانے سے پہلے بھی مجھے کہہ کر گئے کہ میرا تجھ سے کوئی واسطہ نہیں ہے، میں نے تجھے طلاق دی3 دفعہ کہا، اس وقت میری دو بیٹیاں میرے پاس تھیں،  جن کی عمر9 اور6 سال تھی اور کوئی گواہ نہیں تھا، اب 7 سال سے ان کا کچھ پتہ نہیں ہے، نہ کوئی رابطہ ہے مجھ سے ، نہ میرے بچوں سے،  جب سے میں اپنے بچوں کی کفالت بھی خود کر رہی ہوں، اس نے مجھے یا بچوں کو کچھ نہیں دیا، اب بتائیں قرآن وسنت کی روشنی میں میرے لیے کیا حکم ہے؟ طلاق ہوگئی؟ اور عدت لازم ہے یا نہیں؟ میں جاب بھی کرتی ہوں۔

جواب

صورت مسئولہ میں اگر واقعتا صورت حال یہی ہے جو سوال میں مذکور ہے اور اس میں غلط بیانی سے کام نہیں لیا گیا، تو آپ کے شوہر  نے چوں کہ آپ کو مختلف مواقع پر تین طلاقیں دی ہیں، اس لیے آپ تین طلاق مغلظہ کے ساتھ اپنے شوہر پر حرام ہوچکی ہیں، لہذا اب بغیر حلالہ شرعیہ کے آپ کا اپنے شوہر کے ساتھ نہ تجدید نکاح کرنا جائز ہے اور نہ رجوع، اور آپ کو جب سے شوہر نے تین طلاقیں دیں، اس وقت سے آپ پر تین حیض عدت گزارنا لازم تھا، اتنا طویل عرصہ گزرنے کے بعد بھی عدت ختم ہوگئی ہے، لہذا اب آپ جہاں چاہیں شرعی طریقے کے مطابق نکاح کرسکتی ہیں، نیز تین طلاق کے واقع ہونے کے بعد آپ نے شوہر کے ساتھ جو وقت گزارا ہے، اس پر آپ اللہ تعالی سے توبہ اور استغفار کریں۔
لما في القرآن الکریم:
«والمطلقات یتربصن بأنفسھن ثلاثۃ قروء».(سورۃ البقرۃ:228)
وفي بدائع الصنائع:
’’وأما الطلقات الثلاث فحکمھا الأصلي: ھو زوال الملک وزوال حل المحلیۃ أیضا، حتی لا یجوز لہ نکاحھا قبل التزوج بزوج آخر؛ لقولہ عز وجل: «فإن طلقھا فلا تحل لہ من بعد حتی تنکح زوجا غیرہ»، وسواء طلقھا ثلاثا متفرقا أو جملۃ واحدۃ...... وإنما تنتھي الحرمۃ وتحل للزوج الأول بشرائط: منھا: النکاح، وھو أن تنکح زوجا غیرہ لقولہ تعالی:«حتی تنکح زوجا غیرہ».(کتاب الطلاق، فصل في ما لو کان النکاح الثاني صحیحا:407/4:رشیدیۃ)
وفي فتاوی النوازل:
’’وابتداء العدۃ في الطلاق عقیب الطلاق، وفي الوفاۃ عقیب الوفاۃ، وإن لم تعلم بالوفاۃ والطلاق حتی مضت العدۃ، فقد انقضت عدتھا‘‘.(کتاب الطلاق، فصل باب العدۃ، ص:٢١٨:اسلامیۃ).فقط.واللہ تعالٰی اعلم بالصواب.
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتویٰ نمبر:177/19