کیا تین طلاق کے بعد کوئی راستہ باقی رہ جاتا ہے؟

 کیا تین طلاق کے بعد کوئی راستہ باقی رہ جاتا ہے؟

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ  کاشف نے طلاق نامے پر دستخط کیے اور طلاق کو کوئی اہمیت نہ دیتے ہوئے، ابھی تک وہ اپنی منکوحہ کے ساتھ ہیں۔ کیا شرعا کاشف کا اپنی منکوحہ کے ساتھ رہنا ممکن ہے؟ اگر ممکن نہیں ہے تو گھر بچانے کے لیے اس کا شرعا متبادل راستہ کیا ہے؟

جواب

تین طلاقیں دے دینے کے بعد کاشف کی منکوحہ اس پر حرام ہوچکی ہے، اب حلالہ شرعیہ کے بغیر نہ رجوع کرنا ممکن ہے اور نہ ہی تجدید نکاح ممکن ہے۔
نوٹ: ایسے نازک معاملات میں سب سے پہلے علماءکرام سے رابطہ کریں اور ان سے معاملہ کا حل پوچھیں، ایسے وقت میں پوچھنا بے فائدہ ہے کہ جب کوئی متبادل راستہ ہی باقی نہ رہے۔
لما في البدائع:
وأما لطلقات الثلاث: فحكمها الأصلي هو زوال الملك، وزوال حل المحلية أيضا حتى لا يجوز له نكاحها قبل التزوج بزوج آخر؛ لقوله عزوجل:«فإن طلقها فلا تحل له من بعد حتى تنكح زوجا غيره».(البقرة:230) وسواء طلقها ثلاثا متفرقا، أو جملة واحدة‘‘. (كتاب الطلاق، فصل في حكم الطلاق البائن، 403/4، دار الكتب العلمية).فقط.واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب.
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتویٰ نمبر:176/269