تین طلاق کے وقوع سے بچنے کا حیلہ

تین طلاق کے وقوع سے بچنے کا حیلہ

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ایک شخص غصے میں آکر کسی سے کہتا ہے کہ اگر میں نے اپنی دکان کھولی، تو میری بیوی کو تین طلاق ہے، اب وہ تین طلاقوں سے بچنے کے لیے یہ حیلہ کرتا ہے کہ اپنی بیوی کو ایک طلاق بائن’’تنجیزا‘‘ دے کر اسی  دن دکان کھول کر دوبارہ عدت کے دوران تجدید نکاح کرتا ہے، تو کیا اس کے لیے ایسا کرنا درست ہے؟ یا یہ ضروری ہے کہ عورت کے عدت گزرجانے کے بعد شرط واقع کرے اور پھر تجدید نکاح کرلے؟ رہنمائی فرمائیں۔

جواب

صورت مسئولہ میں اگر شوہر تین طلاق واقع ہونے سے بچنے کے لیے حیلہ کرنا چاہتا ہے، تو اپنی بیوی کو ایک طلاق بائن ’’تنجیزا‘‘ دے ، جب عدت گزرجائے تو اپنی دکان کھول دے ،اس کے بعد اپنی بیوی سے دوبارہ نکاح کرلے، اس صورت میں تین طلاقیں واقع نہ ہوں گی، اور آئندہ کے لیے شوہر دو طلاقوں کا مالک ہوگا۔
عدت کے دوران حانث ہونا اور دوبارہ نکاح کرنا درست نہیں ہے، اس صورت میں تینوں طلاقیں واقع ہوجائیں گی۔
لما في الھندیۃ:
’’وإذا أضافہ إلی الشرط وقع عقیب الشرط اتفاقا، مثل: أن یقول لامرأتہ إن دخلت الدار فأنت طالق، ولاتصح إضافۃ الطلاق إلا أن یکون الحالف مالکا‘‘.(کتاب الطلاق، الفصل الثالث:420/1،رشیدیۃ)
وفي الدر المختار:
’’وتنحل الیمین بعد وجود الشرط مطلقا، لکن إن وجد في الملک طلقت وعتق وإلا لا‘‘.(کتاب الطلاق، باب التعلیق:600/4،رشیدیۃ)
وفیہ أیضاً:
’’فحیلۃ من علق الثلاث بدخول الدر، أن یطلقھا واحدۃ، ثم بعد العدۃ تدخلھا فتنحل الیمین، فینکحھا‘‘. (کتاب الطلاق، باب التعلیق:601/4،رشیدیۃ).فقط. واللہ تعالٰی اعلم بالصواب.
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتویٰ نمبر:177/310