اولاد کی پرورش کا حق کس کو ہوگا؟

اولاد کی پرورش کا حق کس کو ہوگا؟

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام مندرجہ ذیل  مسئلہ کے بارے میں کہ میاں بیوی کے درمیان طلاق ،یا خلع کے بعد اولاد  کی پرورش کا حق کس کو حاصل ہوتاہے، جبکہ والد غیر شرعی امور کا مرتکب ہو،مثلاً : ترک صلاۃ  وغیرہ اور اولاد بھی والد کے قریب نہ جانا چاہتی ہو،اور بچوں کو بغرض حسن تربیت بچوں کو اپنے پاس رکھنا چاہتی ہو، صورت مذکورہ ایک ہی بیٹی ہے جس کی عمر بارہ سال ہے،تو اس کی پرورش کا حقدار کون ہوگا؟ شریعت کی روشنی میں رہنمائی فرمائیں۔

جواب

صورت مسئولہ میں بچی کی پرورش کا حق شرعاوالدکو حاصل ہے،اسں  لئے  کہ والد بچی کی حفا ظت ، تعلیم اور تربیت اچھی طرح کرسکتا ہے ، لیکن اگر کسی وجہ سے والد قابل اعتماد نہ رہے ،اوروالد کے پاس بچی کے ضائع ہونے یا اخلاق کے خراب ہونے کااندیشہ ہو ،تو والدہ  اپنے  پاس رکھ سکتی ہے ، خصوصا جبکہ والد غیرشرعی امور کامرتکب ہو،  اور فاسق بھی ہو ،اور بیوی دین دار ہو۔

لما في الدر مع الرد:

"( والأم والجدة ) لأم أو لأب ( أحق بها ) بالصغيرة ( حتى تحيض ) أي تبلغ... في ظاهر الرواية ...( وغيرهما أحق بها حتى تشتهي ) وقدر بتسع ،وبه يفتى، وبنت إحدى عشرة مشتهاة اتفاقا".

وفي الشامية:

"فينبغي للمفتي أن يكون ذا بصيرة؛ ليراعي الأصلح للولد؛ فإنه قد يكون له قريب مبغض له، يتمنى موته.... فإذا علم المفتي أو القاضي شيئا من ذلك، لا يحل له نزعه من أمه ؛لأن مدار أمر الحضانة على نفع الولد ،وقد مر عن البدائع: لو كانت الإخوة والأعمام غير مأمونين على نفسها أو مالها لا تسلم إليهم".(كتاب الطلاق،باب الحضانة:5/ 275، 427،273،ط،رشيدية)

وفي الرد:

"قوله :( سوى فاسق ) استثناء من قوله ثم العصبات ، قال: "في البحر" ولا للعصبة الفاسق، ولا إلى مولى العتاقة ؛تحرزا عن الفتنة ".(كتاب الطلاق،باب الحضانة:5/270،ط،رشيدية)

وفي البحر الرائق:

"ومتى كانت الجارية بكرا يضمها إلى نفسه، وإن كان لا يخاف عليها الفساد إذا كانت حديثة السن، أما :إذا دخلت في السن، واجتمع لها رأي، وعقلت، فليس للأولياء حق الضم ،ولها أن تنزل حيث أحبت ؛حيث لا يتخوف عليها ،وإن كانت ثيبا مخوفا عليها".(كتاب الطلاق،باب الحضانة:4/289،ط،رشيدية)

و في التنوير مع شرحه:

"(بلغت الجارية مبلغ النساء، إن بكرا ،ضمها الاب إلى نفسه) إلا إذا دخلت في السن ،واجتمع لها رأي ،فتسكن حيث أحبت؛ حيث لاخوف عليها (وإن ثيبا، لا) يضمها (إلا إذا لم تكن مأمونة على نفسها) فللاب والجد ولاية الضم".(كتاب الطلاق،باب الحضانة:5/ 277، ط،رشيدية).فقط واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی

فتویٰ نمبر: 175/337