بچے کی پرورش کے لیے دوسرے شخص کو اپنا بچہ دینا

بچے کی پرورش کے لیے دوسرے شخص کو اپنا بچہ دینا

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ زید اور بکر دو بھائی ہیں، بکر کی اولاد ہے اور زید کی اولاد نہیں، اب زید بکر سے کہتا ہے میری اولاد نہیں ہے ،لہذا تم اپنا ایک بچہ مجھے دے دو تاکہ اس کی پرورش کروں اور اس کو اپنا وارث بناؤں، اب بکر نے بچہ پیدا ہوتے ہی زید کو دے دیا اور رضاعت کی مدت بھی پوری نہیں کی۔
کیا ایسا کرنا شرعا جائز ہے کہ اپنی اولاد کسی کو دے؟
کیا اس سے بچے کی حق تلفی ہورہی ہے دودھ پلانے کی صورت میں؟
کیا یہ بچہ بڑا ہوکر اپنا نسب زید کی طرف کرسکتا ہے؟ حالاں کہ حدیث میں اس کی سخت ممانعت آئی ہے۔
کیا زید کی بیوی کا بغیر دودھ پلائے اس سے حرمت کا رشتہ ختم ہوجائے گا؟
یہ بچہ بڑا ہوکر زید کی بیوی سے پردہ کرے گا،جب کہ اسکا دودھ نہ پیا ہو؟
کیا کل کو جب بچہ بڑا ہوجائے بکر زید سے واپسی کا مطالبہ کرسکتا ہے یا نہیں؟
مذکورہ تمام سوالات کا جواب دے کر مشکور فرمائیں اور یہ بھی واضح کریں کہ کیا مدت رضاعت گزرنے کے بعد کسی کو اپنا بچہ دے سکتے ہیں؟
وضاحت: بچے کی والدہ بھی بچہ دینے پر راضی ہے۔

جواب

صورت مسئولہ میں بکر کا اپنے بچے کو پرورش کرنے کے لیے زید کو دینا جائز ہے، البتہ اس کی نسبت اپنے حقیقی باپ (بکر) کی طرف کی جائے گی، زید کی طرف نسبت کرنا جائز نہیں، اور مذکورہ بچہ اپنے حقیقی باپ (بکر) کا وارث ہوگا، زید کا وارث نہیں ہوگا، اور اگر زید کی بیوی نے اس بچے کو مدت رضاعت میں دودھ نہیں پلایا ہو، تو بچے کے بالغ ہونے کے بعد زید کی بیوی کو اس بچے سے پردہ کرنا لازم ہوگا، بشرطیکہ زید کی بیوی اس بچے کی محرم نہ ہو، نیز بکر اپنے بچے کو جس وقت چاہے واپس لے سکتا ہے۔
لما في روح المعاني:
’’وظاھر الآیۃ حرمۃ تعمد دعوۃ الإنسان لغیر أبیہ، ولعل ذلک فیما إذا کانت الدعوۃ علی الوجہ الذي کان في الجاھلیۃ، وأما إذا لم تکن کذلک، کما یقول الکبیر للصغیر علی سبیل الحنن والشفقۃ: یا ابني، وکثیرا ما یقع ذلک، فالظاھر عدم الحرمۃ‘‘.(سورۃ الأحزاب[ الآیۃ: ٥]، ص: ٢١/ ١٩٣: مؤسسۃ الرسالۃ)
وفي تفسیر المدارک:
’’وقیل: کان الرجل في الجاھلیۃ إذا أعجبہ ولد الرجل ضمہ إلی نفسہ وجعل لہ مثل نصیب الذکر مس أولادہ من میراثہ وکان ینسب إلیہ فیقال فلان بن فلان‘‘.(سورۃ الأحزاب، [الآیۃ: ٥]٢/ ٣٣٤:قدیمی کتب خانہ).
وفي التنویر مع الدر:
’’(ویثبت التحریم) في المدۃ فقط ولو (بعد الفطام والاستغناء بالطعام علی) ظاھر (المذھب) وعلیہ الفتوی‘‘.(کتاب النکاح، باب الرضاع، ٤/ ٣٨٩:رشیدیۃ).فقط.واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب.
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتویٰ نمبر:176/48