گاڑی کی فروخت سے حاصل شدہ رقم پر زکوة واجب ہوگی؟

گاڑی کی فروخت سے حاصل شدہ رقم پر زکوة واجب ہوگی؟

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ بندہ نے اس نیت کے ساتھ اپنی گاڑی فروخت کردی کہ گاڑی کی فروخت سے ملنے والی رقم میں مزید کچھ رقم ڈال کر اس گاڑی سے کچھ بہتر گاڑی خریدیں گے اور کئی ماہ گزر گئے مگر اب تک مزید رقم کا انتظام نہیں ہوسکا البتہ بندہ کوشش میں مصروف ہے کہ رقم کا بندوبست ہوجائے تو پرانی گاڑی کی فروخت سے ملنے والی رقم میں ملا کر نئی گاڑی خریدیں گے، پوچھنا یہ ہے کہ رقم کے انتظام میں زیادہ تاخیر ہونے کی وجہ سے اگر پرانی گاڑی کی فروخت سے حاصل ہونے والی رقم پر سال گزر گیا تو کیا اس پر زکوة دینا لازم ہوجائے گی یا نہیں؟ راہنمائی فرمائیں۔

جواب

صورت مسئولہ میں گاڑی کی فروخت سے حاصل ہونے والی رقم  اگر نصاب کے بقدر ہو، اور اس پر سال گزر جائے،یا دیگر مال زکوة کے ساتھ مل کر سال پورا ہوجائے تو اس میں زکوة واجب ہوگی۔

لما في تاتارخانية:

وفي السراجية: الزكاة في الفلوس الرائجة، كما في دراهمنا اليوم لا تجب ما لم يكن قيمتها مائتي درهم من الدراهم التي تغلب النقرة فيها على الغش أو عشرين مثقالًا من الذهب، ولا تشرط فيها نية التجارة. (كتاب الزكاة، الفصل: 2 زكاة المال: 3/161، المكتبة الفاروقية)

وفي البدائع:

ومنها: النصاب، وجملة الكلام في نصاب .... أما الأول: فكمال النصاب شرط وجوب الزكاة فلا تجب الزكاة فيما دون النصاب لأنها لا تجب إلا على الغني والغنا لا يحصل إلا بالمال الفاضل عن الحاجة الأصلية وما دون النصاب لا يفضل عن الحاجة الأصلية فلا يصير الشخص غنيًا به .... وأما مقدار وصفته فلا سبيل معرفتها إلا بعد معرفة أموال الزكاة .... أموال الزكاة ثلاثة أحدها: الأثمان المطلقة وهي الذهب والفضة..... أما الأثمان المطلقة وهي الذهب والفضة .... فإن كان له فضة مفردة فلا زكاة فيها حتى تبلغ مائتي درهم وزنًا وزن سبعة، فإذا بلغت ففيها خمسة دراهم. (كتاب الزكاة، أموال الزكاة، الأثمان المطلقة وصفتها: 2/101، رشيدية)

وفي الشامية:

وحاصله: أن ما يخلص منه نصاب أو كان ثمنًا رائجًا تجب زكاته سواء نوى التجارة أولًا لأنه إذا كان يخلص منه نصاب تجب زكاة الخالص كما صرح به في الجوهرة، وعين النقدين لا يحتاج إلى نية التجارة كما في الشمني وغيره. (كتاب الزكاة، باب زكاة المال: 3/375، رشيدية).فقط واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی

فتویٰ نمبر : 172/13