روزوں کا فدیہ دینے کی تفصیل

Darul Ifta

روزوں کا فدیہ دینے کی تفصیل

سوال

کیا فرماتے ہیں علماء کرام مندرجہ ذیل مسئلہ کے بارے میں کہ روزوں کا فدیہ دینے کا کیا حکم ہے؟ نیز کس کی طرف سے فدیہ دیا جاسکتا ہے؟

جواب

جس کو اتنا بڑھاپا ہو گیا کہ روزہ رکھنے کی طاقت نہیں رہی یا اتنا سخت بیمار ہے کہ اب صحت ہونے کی امید نہیں تو وہ روزے نہ رکھے اور ہرروزہ کے بدلے ایک مسکین کو صدقہ فطر کے برابر غلہ دے یا صبح وشام پیٹ بھر کر اس کو کھانا کھلائے،شریعت میں اس کو فدیہ کہتے ہیں او راگر غلہ کے بدلے اس کو قیمت دے دے تب بھی درست ہے۔
فدیہ دینے کے بعد اگر صحت بحال ہوگئی یا بیماری سے تندرست ہو گیا تو سب قضا روزے رکھنے پڑیں گے اور جو فدیہ دیا ہے اس کا ثواب الگ ملے گا۔
کسی کے ذمہ کئی روزے قضا تھے، اس نے مرتے وقت وصیت کی کہ میرے روزوں کا فدیہ دے دینا تو ولی کو چاہیے کہ کفن دفن اور قرض ادا کرنے کے بعد جتنا مال بچے اس کے ایک تہائی میں سے اگر سب فدیہ ادا ہو جائے تو دے دینا واجب ہو گا اور اگر سب فدیہ نہ نکلے تو جس قدر نکلے دے دیا جائے۔
ویجوز الفطرۃ لشیخ فان وعجوز فافیۃ وتلزمھما الفدیۃ لکل یوم نصف صاع من بر. (حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح: ص، ٦٨٨، قدیمی)
فإن عجز من الصوم لمرض لایرجی برؤہ أوکبر أطعم أي ملک ستین مسکینا۔۔۔۔۔۔ کالفطرۃ قدرا ومصرفا أو قیمۃ ذلک من غیر المنصوص. (الدر المختار، کتاب الطلاق، باب الکفارۃ: ٣/٤٧٨، سعید)
ولو قدر علی الصیام بعد ما فدی، بطل حکم الفداء الذی فداہ، حتی یجب علیہ الصوم، ہکذا في ''النہایۃ''. (الھندیۃ: کتاب الصوم، الباب الخامس في الأعذار التي تبیح الأفطار: ١/٢٠٧، رشیدیۃ)
فإن لم یصم حتی أدرکہ الموت، فعلیہ أن یوصي بالفدیۃ، کذا في ''البدائع'' ویطعم عنہ ولیہ لکل یوم مسکینا نصف صاع من بر، أو صاعا من تمر، أو صاعا من شعیر، کذا في ''الہدایۃ'': فإن لم یوص وتبرع عنہ الورثۃ جاز، ولا یلزمہم من غیر إیصاء، کذا في ''فتاوی قاضي خان''. (الھندیۃ،١/٢٠٧، رشیدیۃ).فقط واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی

footer