صدقہ فطر کس پرواجب ہے؟

Darul Ifta

صدقہ فطر کس پرواجب ہے؟

سوال

کیا فرماتے ہیں علماء کرام مندرجہ ذیل مسئلہ کے بارے میں کہ :مثلاً زید کے، خالد، بکر، عمر اور یحییٰ چار بیٹے ہیں، چاروں بیٹے شادی شدہ اور صاحب اولاد ہیں، زید اپنے چاروں بیٹوں کے ساتھ اکٹھےایک ہی گھر میں رہتا ہے او رگھر کے اخراجات اور آمدنی سب مشترک ہیں،بیٹوں کی کمائی یہ ہے: خالد ملازم ہے،بکر تجارت کرتا ہے، عمر بکریاں چراتا ہے اور یحییٰ کاشت کاری کرتا ہے، آمدنی میں سب برابر کے شریک ہیں، چاروں لڑکوں کی کمائی سے زید حسب ضرورت لیتا رہتا ہے، زمین ، تجارت اور بکریوں کے اصل رأس المال میں زید کے ساتھ بیٹے بھی شریک ہیں۔

۱۔ اب مذکورہ بالا صورت میں صدقۃ الفطر کس پر واجب ہوتا اور کس پر نہیں؟

۲۔”أنت ومالک لأبیک” حدیث کے تحت بیٹے مفلس تو قرار نہیں دیے جاتے؟ اگر جواب اثبات میں ہو تو ”صدقۃ الفطر واجبۃ علی کل حر مسلم بالغ عاقل” کے لحاظ سے بلوغت کی مقدار کیا ہو گی؟ اور اگر جواب نفی میں ہو تو حدیث کا مقصد او رحق ملکیت اولاد کی مقدار کیا ہو گی؟

جواب

۱۔ صورت مسؤلہ میں اگر یہ مشترکہ مال اتنا ہے کہ اگر ان پانچ آدمیوں پر تقسیم کیا جائے تو ہر ایک کے حصہ میں بقدر نصاب آئے، تو ہر ایک پر اپنے اور اپنی نابالغ اولاد کی طرف سے صدقۃ الفطر واجب ہو گا۔

۲۔ اگر یہ باپ کے لگائے ہوئے کاروبار میں یا زراعت یا دیگر پیشہ میں ہاتھ بٹاتے تو سارا مال باپ کا ہوتا، لیکن جب کہ یہ الگ الگ کمائی کرکے لاتے ہیں تو اب یہ مشترکہ مال سب کا ہے،لہٰذا  اگر اس کو برابر تقسیم کرنے پر ہر ایک کا حصہ بقدر نصاب پہنچتا ہے تو یہ مفلس نہیں،باقی حدِ بلوغ علاماتِ بلوغ کا ظاہر ہونا ہے، اگر پندرہ سال کی عمر تک علاماتِ بلوغ ظاہر نہ ہوں تو بلوغت کا حکم لگا دیا جائے گا۔

وہي واجبۃ علی الحر المسلم المالک لمقدار النصاب فاضلا عن حوائجہ الأصلیۃ ۔۔۔ وتجب عن نفسہ وطفلہ الفقیر.( الھندیۃ، کتاب الزکاۃ، الباب الثامن في صدقۃ الفطر: ١/١٩١،١٩٢، رشیدیۃ)
وإذا ثبت أن البلوغ یثبت بالاحتلام یثبت بالإنزال؛ لأن ما ذکرنا من المعاني یتعلق بالنزول لا بنفس الاحتلام إلا أن الاحتلام سبب لنزول الماء عادۃ فعلق الحکم بہ، وکذا الإحبال؛ لأنہ لا یتحقق بدون الإنزال عادۃ، فإن لم یوجد شيء مما ذکرنا فیعتبر البلوغ بالسن.
وقد اختلف العلماء في أدنی السن التي یتعلق بہا البلوغ قال أبو حنیفۃ ـ رحمہ اللّٰہ تعالیٰ ـ ثماني عشرۃ سنۃ في الغلام وسبع عشرۃ في الجاریۃ، وقال أبو یوسف ومحمد والشافعي ـ رحمہم اللّٰہ ـ خمس عشرۃ سنۃ في الجاریۃ والغلام جمیعا. (البدائع، کتاب الحجر والحبس: ٦/١٥٣، رشیدیۃ).فقط واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی

footer