کیا حاجی پر عید والی قربانی واجب ہے یا نہیں؟

کیا حاجی پر عید والی قربانی واجب ہے یا نہیں؟

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام درج ذیل  مسئلہ کے بارے میں کہ ہمارے علاقے میں یہ رواج ہے اور فرض سمجھا جاتا ہے کہ جو حاجی حج کے لئے جاتا ہے، وہ گھر والوں میں سے کسی کو وکیل بناکر کہتا ہے کہ میری طرف سے قربانی آپ کیجئے گا،حالاں کہ اس حاجی کی طرف سے تو قربانی مکہ معظمہ میں ہوگی، اب کیا یہ گھر والے جو قربانی کرتے ہیں،تو ان کے لیے  ضروری ہے کہ وہ حاجی کی طرف سے قربانی کریں یا یہ کوئی رواج ہے؟براہ کرم اس مسئلہ کا واضح طور پر جواب دے دیں۔

جواب

صورت مسئولہ میں گھر والوں پر حاجی کے لئے قربانی کرنا واجب نہیں ہے ،کیوں کہ حاجی جب حج کے لئے چلا جاتا ہے، تو وہ مسافر بن جاتا ہےاور مسافر پر قربانی واجب نہیں ہے اورقربانی کے لئےیسار اور اقامۃ شرط ہے۔ہاں اگر ایک شہر مکہ یا مدینہ میں پندرہ دن یا اس سے زیادہ ٹھہرنے کی نیت ہو اور قربانی کے دن آگئے تو قربانی واجب ہوگی۔
نیز حاجی مکہ معظمہ میں جو قربانی کرتا ہے وہ اضحیۃ کے قبیل میں سے نہیں ہے بلکہ اس کو دمِ شکر کہا جاتا ہے۔
لما في بدائع الصنائع:
ومنها: الإقامة فلا تجب على المسافر؛ لأنها لا تتأدى بكل مال ولا في كل زمان، بل بحيوان مخصوص في وقت مخصوص، والمسافر لا يظفر به في كل مكان في وقت الأضحية، فلو أوجبنا عليه لاحتاج إلى حمله مع نفسه، وفيه من الحرج ما لا يخفى، أو احتاج إلى ترك السفر، وفيه ضرر، فدعت الضرورة إلى امتناع الوجوب، بخلاف الزكاة؛ لأن الزكاة لا يتعلق وجوبها بوقت مخصوص بل جميع العمر وقتها، فكان جميع الأوقات وقتاً لأدائها، فإن لم يكن في يده شيء للحال يؤديها إذا وصل إلى المال، وكذا تتأدى بكل مال، فإيجابها عليه لا يوقعه في الحرج، وكذلك صدقة الفطر ؛ لأنها تجب وجوباً موسعاً كالزكاة، وهو الصحيح;وعند بعضهم وإن كانت تتوقف بيوم الفطر لكنها تتأدى بكل مال، فلا يكون في الوجوب عليه حرج، وذكر في الأصل.
"وقال: ولا تجب الأضحية على الحاج؛ وأراد بالحاج المسافر، فأما أهل مكة فتجب عليهم الأضحية وإن حجوا''۔(کتاب التضحیۃ،۶۳/۵،دار الکتب العلمیۃ).فقط.واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب.

فتویٰ نمبر: 260/ 10

دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی