کیاجائیداد پر زکوۃ واجب ہوگی؟

Darul Ifta

کیاجائیداد پر زکوۃ  واجب ہوگی؟

سوال

کیافرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ایک شخص کے چار مکان ہیں، دو کمروں میں ان کے بچے رہائش پذیر ہیں، یعنی وہ زیرِ استعمال ہیں مگر دو کمرے خالی ہیں، ان کی مالیت تقریباً چالیس یا   پینتالیس ہزار روپے کے لگ بھگ ہے، اس کے پاس ایک خالی پلاٹ بھی ہے، جس کی مالیت پچاس  ہزار ۵۰۰۰۰روپے ہے، اب وہ قرض سے بھی آزاد ہو چکا ہے، کیا مجموعہ جائیداد پر زکوٰۃ فرض ہو گی ؟ نیز گزشتہ دو تین سال کی زکوٰۃ انہوں نے اس جائیداد کی لاعلمی کی وجہ سے ادا نہیں کی، اس کی تلافی کی کیا صورت ہو گی؟

جواب

رہائشی مکان پر زکوٰۃ واجب نہیں ہوتی اور خالی پلاٹ اگر تجارت کی نیت سے خریدا ہے تو پھر اس کی قیمت پر زکوٰۃ واجب ہو گی اور اگر تجارت کی نیت سے نہیں خریدا تو اس پر زکوٰۃ واجب نہیں، اگر کسی مال پر زکوٰۃ واجب ہو چکی ہے لیکن ادائیگی میں تاخیر ہو گئی ہے تو اب ادا کی جاسکتی ہے۔
الزکاۃ واجبۃ في عروض التجارۃ کائنۃ ما کانت إذا بلغت قیمتہا نصابا من الورق أو الذہب . (الھدایۃ، کتاب الزکاۃ، فصل في العروض: ١/١٩٥، شرکۃ علمیۃ)
ولیس في دور السکنی وثیاب البدن وأثاث المنازل ودواب الرکوب وعبید الخدمۃ وسلاح الاستعمال زکاۃ؛ لأنہا مشغولۃ بالحاجۃ الأصلیۃ ولیست بنامیۃ أیضا وعلی ہذا کتب العلم لأہلہا وآلات المحترفین لما قلنا.(الھدایۃ، کتاب الزکاۃ ١/١٨٦، شرکۃ علمیۃ)
وفي التنویر: ولا في ثیاب البدن وأثاث المنزل ودور السکنی ونحوہا.
وفي الرد: قولہ: (ونحوھا) أي: کثیاب البدن الغیر المحتاج إلیھا وکالحوانیت والعقارات.(رد المحتار، کتاب الزکاۃ: ٢/٢٦٥،سعید)
(وکذا في الھندیۃ، کتاب الزکوۃ، الباب الأول: ١/١٧٢، رشیدیۃ)
ومن کان علیہ دین یحیط بمالہ فلا زکاۃ علیہ، وإن کان مالہ أکثر من دینہ: زکی الفاضل إذا بلغ نصابا؛ لفراغہ عن الحاجۃ الأصلیۃ والمراد بہ: دین لہ مطالب من جہۃ العباد. (الھدایۃ، کتاب الزکاۃ: ١/١٨٦، شرکۃ علمیۃ).فقط واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی

footer