کوئی شخص قربانی کے ایام میں قربانی نہ کرسکا تو کیا حکم ہے

کوئی شخص قربانی کے ایام میں قربانی نہ کرسکا تو کیا حکم ہے

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ میں مندرجہ ذیل وجوہات کی بناء پر اپنے نام پر قربانی نہیں کرسکا۔

1۔ ابتدا میں میں منڈی جانے سے ڈرتا تھا اور حصہ کی تلاش میں تھا  (کورونا وائرس کی وجہ سے)
2۔بعد میں جب میں حصہ (کچھ کاہلی کی وجہ سے بھی) نہیں پا سکا، تو میں نے دنبہ تلاش کرنے کے لئے چاند رات کو منڈی جانے کا فیصلہ کیا،لیکن منڈی میں اس کی قیمت بہت زیادہ تھی لہذا میں نے عید کے دن خرید نے کا فیصلہ کیا۔
میں عید کی دوسری رات کو گیا لیکن میری مقرر کردہ قیمت میں مجھے دنبہ / بکری نہ مل سکی۔ وہ جو میری رینج میں تھے بہت چھوٹے تھے اور مجھے چھوٹی بکریوں کی قربانی کرنا پسند نہیں ہے۔
اب میں یہ جاننا چاہتا ہوں کہ چوں کہ میں نے مند رجہ بالا وجوہات کی وجہ سے قربانی کو چھوڑ دیا تو کیا میں گناہگار ہوں گا؟ ،نیز اللہ کی سزا سے بچنے کے لئے، اسلام میں ہمارے پاس اور کیا متبادل ہے؟ ( جیسے کسی غریب شخص کو اتنی رقم دینا وغیرہ؟)
3۔ میں نے یہ بھی سنا ہے کہ اگر گھر والوں میں سے کوئی بھی قربانی کررہا ہے، تو پھر ہر ایک کے لیے قربانی کرنا ضروری نہیں ہے۔ کیا یہ سچ ہے؟

جواب

۔واضح رہے کہ سوال میں ذکر کردہ وجوہات ایسی نہیں ہیں کہ جن کی وجہ سے قربانی کا وجوب ساقط ہوجائے، لہذا قربانی کو چھوڑنے کی وجہ سے آپ گناہ گار ہوئے ہیں۔
2۔ قربانی کے دنوں میں تو جانور ذبح کرنا واجب ہے، اور اگر کسی نے ان دنوں میں قربانی نہ کی ہو، تو اس پر بعد میں قربانی کے جانور (درمیانی بکرے) کی قیمت کسی غریب کو دینا واجب ہے۔

3۔گھر میں کوئی بھی قربانی کرے، تو باقی گھر والوں پر قربانی واجب نہیں ہوتی یہ بات درست نہیں ہے، بلکہ گھر میں جتنے صاحب نصاب افراد ہوں، تو ان میں سے ہر ایک پر الگ الگ قربانی کرنا واجب ہے۔

لما في الشامية:
’’والواجب ما ثبت بدليل فيه شبهة كصدقة الفطر والأضحية وحكمه اللزوم عملًا كالفرض لا علمًا على اليقين للشبهة حتى لا يكفر جاحده و يفسق تاركه بلا تأويل كما هو مبسوط في كتب الأصول‘‘.(كتاب الأضحية: 9/521، مكتبة رشيدية)
وفية أيضًا:
’’وحكمها الخروج عن عهدة الواجب في الدنيا والوصول إلى الثواب بفضل الله في العقبى مع صحة النية اذ لا ثواب بدونها فتجب التضحية: أي: إراقة الدم من النعم عملًا....‘‘
’’قوله: (أي الإراقة الدم) قال في الجوهرة والدليل على أنها الإراقة لو تصدق بعين الحيوان لم يجز‘‘. (كتاب الأضحية: 9/521، مكتبة رشيدية).
وفي تبيين الحقائق:
’’وقال مالك: تجوز الواحدة عن أهل بيت واحد وإن كانوا اكثر من سبعة ولا تجوز عن أهل بيتين وإن كانوا اقل منها لقوله عليه السلام ((على كل بيت في كل عام أضحاة وعتيرة)) قلنا المراد منه والله أعلم قيم أهل بيت؛ لأن اليسار له خذف المضاف وأقام المضاف إليه مقامه، يؤيده ما روي على كل مسلم في كل وام أضحاة وعتيرة‘‘. (كتاب الأضحية: 6/746، مكتبة رشيدية)
وفي التنوير:
’’ولو تركت التضحية ومضت أيامها تصدق بها حية ناذر لمعينة وفقير شراها لها وتصدق بقيمتها غني شراها أولا لتعلقها بذمته شراها أولا، المراد بالقيمة قيمت شاة تجزي فيها‘‘. (كتاب الأضحية: 9/ 531،533، رشيدية).فقط.واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب.

فتویٰ نمبر:64-66/ 169

دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی