ڈاکٹر کی دوا سے مریض کی موت ہوجائے تو ضمان کس پر ہوگا؟

ڈاکٹر کی دوا سے مریض کی موت ہوجائے تو ضمان کس پر ہوگا؟

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ اگر کوئی ماہر ڈاکٹر کسی مریض کو دوائی لکھ کر دے ،وہ دوائی مریض کو اس کے والدین پلائیں اور وہ دوائی مریض کی موت کا سبب بن جائے، تو اب پوچھنا یہ ہے کہ دیت او رکفارہ کس پر ہے؟ ڈاکٹر پر، یا اس کے والدین پر، یا کسی پر بھی نہیں؟
اگر ڈاکٹر غیر حاذق ہو اور کسی مریض کو دوائی لکھ کر دے ، وہ دوائی مریض کو اس کے والدین پلائیں اور اس کی دوائی کی وجہ سے مریض کی موت واقع ہوجائے، تو ایسی صورت میں دیت اور کفارہ کس پر ہے؟ ڈاکٹر پر، یا اس کے والدین پر، یا کسی پر بھی نہیں؟

جواب

طبیب اگر حاذق ہو تو اس کے لیے علاج کرنا جائز ہے اور اگر اس کے علاج کی وجہ سے مریض ہلاک ہوجائے ،تو اگر اس نے مریض کے اولیاء کی اجازت اور اصول طِبیہ کے موافق علاج کیا، تو اس پر ضمان نہیں، اگر بغیر اجازت اور اصول طِبیہ کے خلاف علاج کیا ہو، تو اس پر ضمان واجب ہوگا، پھر اگر پورا علاج اصول طِبیہ کے خلاف کیا ہو، تو پوری دیت لازم ہوگی، اور اگر کچھ علاج اصول طِبیہ کے موافق اور کچھ مخالف ہوو، تو پھر نصف دیت لازم ہوگی۔
اور اگر طبیب حاذق نہ ہو، تو اس کے لیے علاج کرنا جائز نہیں، اگر اس کے علاج کی وجہ سے مریض ہلاک ہوجائے، تو پوری دیت لازم ہوگی، چاہے اولیاء سے اجازت لی ہو یا نہیں، اصول طِبیہ کے موافق علاج کیا ہو یا ان کے خلاف کیا ہو۔
نوٹ: یہ تفصیل اس وقت ہے کہ جب علاج میں ڈاکٹر کا اپنا ہاتھ استعمال ہوا ہو (مثلاً، آپریشن کیا ہو، یا انجیکشن لگایا ہو، یا اپنے ہاتھ سے مریض کو دوا پلائی ہو) اگر صرف لکھ کر دی ہو، مریض نے خود استعمال کیا ہو، یا والدین نے پلائی ہو، تو کسی پر ضمان نہیں ہوگا۔
لما في سنن أبي داود:
’’عمرو بن شعیب عن أبیہ، عن جدہ ،أن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قال: من تطیب ولا یعلم منہ طب فھو ضامن‘‘.(کتاب الدیات، باب في من تطیب بغیر علم: ٤/ ٢٥، دار إحیاء التراث)
وفي بذل المجہود:
’’قولہ: (فھو ضامن) قال الخطابي: ولا أعلم خلافا في أن المعالج إذا تعدی فتلف المریض کان ضامنا، والمتعاطي علما أو عملا لا یعرفہ متعد، فإذا تولد من فعلہ التلف ضمن الدیۃ وسقط عنہ القود؛ لأنہ لا یستبد بذلک بدون إذن المریض، وجنایۃ الطبیب في قول عامۃ الفقہاء علی عاقلتہ‘‘.(کتاب الدیات، باب في من تطیب بغیر: ١٢/ ٦٩١:دار البشائر)
وفي التنویر مع الدر:
’’(ولا ضمان علی حجام وبزاغ) أي بیطار (وفصاد لم یجاوز الموضع المعتاد فإن جاوز) المعتاد (ضمن الزیادۃ کلھا إذا لم یھلک) المجني علیہ (وإن ھلک ضمن نصف دیۃ النفس) لتلفھا بمأذون فیہ وغیر مأذون فیہ فیتنصف ثم فرغ علیہ بقولہ: (فلو قطع الختان الحشفۃ وبرئ المقطوع تجب علیہ دیۃ کاملۃ) لأنہ لما برئ کان علیہ ضمان الحشفۃ وھي عضو کامل کاللسان (وإن مات فالواجب علیہ نصفھا) لحصول تلف النفس بفعلین أحدھما مأذون فیہ وھو قطع الجلدۃ والآخر غیر مأذون فیہ وھو قطع الحشفۃ فیضمن النصف ولو شرط علی الحجام ونحوہ العمل علی وجہ لا یسري لا یصح لأنہ لیس في وسعہ إلا إذا فعل غیر المعتاد فیضمن، وفیھا: سئل صاحب المحیط عن فصاد قال لہ غلام أو عبد أفصدني ففصد فصدا معتادا فمات بسببہ قال تجب دیۃ الحر وقیمۃ العبد علی عاقلۃ الفصاد لأنہ خطأ وسئل عن من فصد نائما وترکہ حتی مات من السلان قال یجب القصاص‘‘.(کتاب الإجارۃ، باب ضمان الأجیر: ٩/ ١١٦:رشیدیۃ)
وفیہ أیضا:
’’(بل) یمنع (مفت ماجن) یعلم الحیل الباطلۃ کتعلیم الردۃ لتبین من زوجھا أو لتسقط عنھا الزکاۃ (وطبیب جاھل)‘‘.
وتحتہ في الرد:
’’(قولہ:وطبیب جاھل) بأن یسقیہم دواء مھلکا وإذا قوي علیھم لا یقدر علی إزالۃ ضررہ‘‘.(کتاب الحجر: ٩/ ٢٤٨:رشیدیۃ).فقط.واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب.
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتویٰ نمبر:181/225