سات ماہ کا حمل ساقط کرنے سے دیت کا حکم

Darul Ifta mix

سات ماہ کا حمل ساقط کرنے سے دیت کا حکم

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام مندرجہ ذیل  مسئلہ کے بارے میں کہ  خاتون کا سات مہینے کا حمل تھا، ایکسرے کرنے کے بعد ڈاکٹر نے مشورہ دیا کہ بچہ تو مکمل ہے ، لیکن یہ بچہ جب پیدا ہوگا تو صحیح سالم نہیں ہوگا، بلکہ معذور پیدا ہوگا، پوری زندگی تمہارے لیے پریشانی کا باعث ہوگا، لہذا ابھی سے ضائع کردو، چنانچہ گھر والوں نے ڈاکٹر کے مشورے کے مطابق اسی ڈاکٹر سے ضائع کروادیا ،جبکہ حمل ضائع کروانے میں شوہر کی رضامندی اور اجازت شامل تھی ،  تو کیا اس صورت میں دیت لازم ہوگی ؟ اور اگر ہوگی تو کس پر آئے گی؟ نیز اس طرح ضائع کرنے کا کیا حکم ہے؟ وضاحت فرمائیں ۔

جواب

واضح رہے کہ حمل کو ضائع کرانا سخت گناہ ہے، خصوصاً  اعضاء  بننے کے بعد (جس کی مدت تقریباً چار ماہ ہے) گناہ کی شناعت  اور بڑھ جاتی ہے ، اس لیے اس سے توبہ و استغفار  لازم اور ضروری ہے ، البتہ صورت مسئولہ میں چونکہ شوہر کی اجازت سے حمل ساقط کروایا گیا ہے ، اس لیے دیت کسی پر لازم نہیں ہوگی ، البتہ توبہ و استغفار لازم ہے۔

لما في التنوير مع الدر:

          (ولا كفارة في الجنين) عندنا وجوبا بل ندبا.زيلعي (إن وقع ميتا.....................(وما استبان بعض خلقه (كظفروشعر (كتام فيما ذكر) من الاحكام وعدة ونفاس كما مر في بابه (وضمن الغرة عاقلة امرأة) ........(أسقطته ميتا) عمدا (بدواء أو فعل) كضربها بطنها (بلا إذن زوجها، فإن أذن) أو لم يتعمد(لا) غرة لعدم التعدي، ولو أمرت أمرأة ففعلت لا تضمن المأمورة..........وفي الواقعات: شربت داء لتسقطه عمدا: فإن ألقته حيا فمات فعليها الدية والكفارة.

وفي الرد تحته:

قوله ( كضربها بطنها ) وكما إذا عالجت فرجها حتى اسقطت.......

  قوله ( فإن أذن لا ) ذكره الزيلعي وصاحب الكافي وغيرهما............

 صرحوا به من أن الجنين لم يعتبر نفسا عندنا لعدم تحقق آدميته وأنه اعتبر جزءا من أمه من وجه ولذا لا تجب فيه القيمة أو الدية كاملة ولا الكفارة ما لم تتحقق حياته وقدمنا أن وجوب الغرة تعبدي فلا يصح إلحاقه بالنفس المحققة.

(كتاب الديات ، فصل في الجنين :10/261-264،ط: رشيدية)

وفي الهندية:

   والمرأة إذا ضربت بطن نفسها أو شربت دواء لتطرح الولد متعمدة أو عالجت فرجها حتى سقط الولد ضمن عاقلتها الغرة إن فعلت بغير إذن الزوج وإن فعلت بإذنه لا يجب شيء كذا في الكافي.

(كتاب الجنايات ،فصل في إتلاف الجنين:6/44 ،ط:دارالفكر) فقط واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی

فتوی نمبر: 170/19