ٹھیکیدار حضرات زکوٰۃ کس اعتبار سے ادا کریں گے؟

Darul Ifta

ٹھیکیدار حضرات زکوٰۃ کس اعتبار سے ادا کریں گے؟

سوال

کیافرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ٹھیکیدار حضرات جو سرکاری ٹھیکہ لیتے ہیں اور ٹھیکوں میں اپنی رقم خرچ کرلیتے ہیں، سرکاری بل کلیئر ہونے میں بعض دفعہ بہت زیادہ عرصہ لگ جاتا ہے، تو کبھی کبھی سرکاری بل آنے سے پہلے ان کی زکوٰۃ کی تاریخ آجاتی ہے، تو کیا یہ ٹھیکیدار حضرات سرکاری ٹھیکوں میں اپنی جیب سے لگائی گئی رقم کی زکوٰۃ ادا کریں یا بعد میں سرکار کی طرف سے ملنے والی رقم کی زکوٰۃ ادا کریں گے؟ بعض دفعہ یہ بل آنے میں کئی سال لگ جانے کا خدشہ ہوتا ہے کہ حکومتیں ٹوٹنے اور بننے کی وجہ سے کام تاخیر کے شکار ہوتے ہیں تو اس صورت میں کیا حکم ہے؟
وضاحت: ٹھیکیدار حضرات سرکاری ٹھیکوں میں اپنی جیب سے رقم خرچ کرتے ہیں، یعنی میٹریل اور دیگر ضروریات کا خرچ اپنی جیب سے کرتے ہیں۔

جواب

صورت مسئولہ میں ٹھیکیدار حضرات سرکار کی طرف سے ملنے والی ٹھیکیدار کی رقم کی زکوٰۃ ادا کریں گے، لیکن یہ ادا کرنا فوراً لازم نہیں ہوگی، بلکہ جب انہیں سرکار کی طرف سے رقم ملے گی اور ٹھیکیدار اس رقم پر قبضہ کریں گے، تب زکوٰۃ ادا کریں گے، اور جتنے سال گزرچکے ہیں ان تمام سالوں کی زکوٰۃ ادا کریں گے، اور اگر چاہیں تو رقم ملنے سے پہلے بھی زکوٰۃ ادا کرسکتے ہیں۔
لما في التنویر مع الدر:
’’(و) اعلم أن الدیون عند الإمام ثلاثۃ: قوي، ومتوسط، وضعیف فـ (تجب) زکاتھا إذا تم ںصابا وحال الحول، لکن لا فورا بل (عند قبض أربعین درھما من الدین) القوي کقرض (وبدل مال تجارۃ)، فکلما قبض أربعین درھما یلزمہ درھم (و) عند قبض (مائتین منہ لغیرھا) أي: من بدل مال لغیر تجارۃ، وھو المتوسط کثمن سائمۃ، وعبید خدمۃ، ونحوھما مما ھو مشغول بحوائجہ الأصلیۃ، کطعام وشراب، وأملاک ویعتبر ما مضی من الحول قبل القبض في الأصح‘‘.(کتاب الزکاۃ، مطلب في وجوب الزکاۃ في دین المرصد:281/3، رشیدیۃ).
وفي البدائع:
’’أما القوي: فھو الذي وجب بدلا عن مال التجارۃ کثمن عرض التجارۃ من ثیاب التجارۃ، وعبید التجارۃ، أو غلۃ مال التجارۃ ولا خلاف في وجوب الزکاۃ فیہ إلا أنہ لایخاطب بأداء شيء من زکاۃ ما مضی مالم یقبض أربعین درھما فکلما قبض أربعین درھما أدی درھما واحدا وعند أبي یوسف ومحمد کلما قبض شیئاً یؤدي زکاتہ قبل المقبوض أو کثر‘‘. (کتاب الزکاۃ: 390/2، رشیدیۃ).فقط.واللہ تعالٰی اعلم بالصواب.
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتویٰ نمبر:178/311

footer