وسواسی اور شکی انسان کا طلاق وظہار میں شک ہونے کا حکم

وسواسی اور شکی انسان کا طلاق وظہار میں شک ہونے کا حکم

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ اگر کوئی انسان نیند میں ہو اور بیوی اسے بوسہ دے اور اس شخص کو لگے کہ یہ بوسہ اس کی ماں نے دیا ہے ،لیکن پھر پتہ چل جائے کہ یہ بیوی تھی تو کیا کچھ ہوا؟ اسی طرح یہ انسان ظہار کے بارے میں سوچ رہا تھا بیوی کے ساتھ لیٹے تھوری دیر بعد خود بہ خود اس کے منہ سے ”میری باجی” کے الفاظ نکلے جب بیوی کو گلے لگایا یا بوسہ دینے لگا، منہ کے اندر ہی اندر، اس سے کوئی نیت یا ارادہ نہیں تھا بیوی کو حرام کرنے کا، بلکہ بیوی کے ساتھ لیٹے لیٹے اچانک منہ کے اندر ہی اندر یہ الفاظ کہے، ہوسکتا ہے کہ ظہار کے بارے میں سوچنے کی وجہ سے زبان پر آگئے ہوں ۔
اسی طرح بیوی کے ساتھ غلط یا حرام حرکت کی، اب اسے وہ غلط حرکت کا خیال ذہن میں آیا اور اس نے منہ ہی منہ میں ”حرام” کا لفظ دو تین بار بولا، اس کی نیت بیوی کو حرام کرنے کی یا طلاق دینے کی نہیں تھی بلکہ وہ حرام حرکت کا خیال آگیا تھا ذہن میں، کیا اس سے کچھ ہوا؟ اسی طرح کچھ غلط خیال آیا اس شخص نے فوراً لفظ ”حرام” بولا اس خیال کو ہٹانے کے لیے، کیا اس سے نکاح پر کوئی فرق پڑا؟

جواب

صورت مسئولہ میں اس کی بیوی کو نہ طلاق ہوئی ہے، نہ ظہار ہوا ہے، اور نہ بیوی اس پر حرام ہوئی ہے، اس بارے میں سوچنا اور خیال کرنا چھوڑ دے۔
لما في الصحیح لمسلم:
˒˒عن أبي ہریرۃ رضي اللہ عنہ قال: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: إن اللہ تجاوز عن أمتي ما وسوست بہ صدورہا، ما لم تعمل بہ أو تتکلم˓˓.(کتاب الإیمان، باب تجاوز اللہ عن حدیث النفس والخواطر بالقلب إذا لم یستقر، حدیث: ٣٣١: دار السلام)
وفي حاشیۃ الطحطاوي:
’’لو أجری الطلاق علی قلبہ، وحرّک لسانہ من غیر تلفظ یسمع لا یقع وإن صحح الحروف‘‘.(کتاب الصلاۃ: ١/ ٢١٩: قدیمي کتب خانہ)
وفي الأشباہ والنظائر:
’’قاعدۃ: من شک ہل فعل شیأا أم لا، فالأصل أنہ لم یفعل۔۔۔۔۔۔ ومنہا: شک ہل طلّق أم لا، لم یقع‘‘.(القاعدۃ الثالثبۃ: الیقین لا یزول بالشک، ٥/ ٥٢: الوحیدیۃ).فقط.واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب.
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتویٰ نمبر : 173/60