نماز جنازہ کا مفصل طریقہ احادیث وآثار کی روشنی میں

نماز جنازہ کا مفصل طریقہ احادیث وآثار کی روشنی میں

سوال

کیا فرماتے ہیں علماء کرام اس بارے میں کہ احناف جس طرح نماز جنازہ ادا کرتے ہیں،کیا یہ احادیث و آثار سے ثابت ہے؟براہ مہربانی احادیث و آثار کی روشنی میں اسے مدلل ثابت کردیں۔ شکریہ

جواب

نماز جنازہ کا طریقہ یہ ہے کہ پہلی تکبیر کے بعد ثناء دوسری تکبیر کے بعد درود شریف اور تیسری تکبیر کے بعد نمازِ جنازہ کی دعا پڑھیں گے، چوتھی تکبیر کے بعد دعا وغیرہ نہیں پڑھیں گے،اور بغیر کوئی دعا پڑھے ہوئے سلام پھیر دیں گے۔

(کذا فی التنویر وشرحه مع رد المحتار، باب صلاة الجنازة: 2/128-130، رشیدیة)

في خلاصة الفتاوى، فصل في الجنائز: 1/223-225، امجد اكيدمي)

"عن أبي هاشم عن إبراهيم النخعي قال: الأولى: الثناء على الله، والثانية: صلاة على النبي صلي الله عليه وسلم، والثالثة: دعاء للميت، والرابعة: سلام تسلم». قال محمد: وبه نأخذ، وهو قول أبي حنيفة رحمه الله تعالى".(كتاب الآثار مع حاشية الحافظ رياض أحمد، باب الصلاة على الجنازة: 236)

(ومثله في المصنف لابن أبي شيبة، كتاب الجنائز، باب ما يبدأ به في التكبيرة الأولى عن أبي هاشم عن الشعبي: 11496)

تنبیہ:

نمازِ جنازہ میں ثناء، درود اور دعا کو کسی خاص الفاظ میں تو پڑھنا لازم نہیں ہے، البتہ ان الفاظ میں پڑھنا بہتر ہے، جنہیں ابھی ہم آثار واحادیث کی روشنی میں ذکر کریں گے۔

"عن أبي سلمة قال: سمعتُ الشعبي يقول في الصلاة على الميت: ليس فيه شيء مؤقت".(المصنف لابن أبي شيبة، من قال: ليس على الميت دعاء مؤقت: 11492)

تکبیراتِ جنازہ:

ائمہ اربعہ اور جمہور اہل سنت والجماعت کے ہاں نمازِ جنازہ میں صرف چار تکبیریں ہیں، نہ کم نہ زیادہ، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل آخر بھی یہی نقل کیا گیا ہے، اور اسی پر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا اجماع منعقد ہوا۔

"ورجّح جمهور أصل السنة كون التكبير أربعًا بمرجحات، منها أنها في الصحيحين، ولإجماع الصحابة على العمل بها، وأنها أخر ما وقع منه صلى الله عليه وسلم".(الفقه الإسلامي وأدلته، أركان صلاة الجنازة وسننها وكيفيتها: 2/516)

انظر المصنف لابن أبي شيبة (11564)، ومصنف عبد الرزاق (6395) والسنن الكبرى للبيهقي (6946-6948)، وكتاب الآثار (640)

تکبیرات میں رفعِ یدین:

نمازِ جنازہ میں صرف پہلی تکبیر کہتے ہوئے رفع یدین کریں گے، باقی اور تکبیروں میں رفع یدین نہیں۔

"عن أبي هريرة قال: كان رسول الله صلي الله عليه وسلم إذا صلى على الجنازة رفع يديه في أول تكبيرة، ثم وضع يده اليمنى على اليسرى". (الدارقطني، الجنائز، وضع اليمنى على اليسرى ورفع الأيدي عند التكبير (1813))

(انظر أيضًا السنن الكبرى للبيهقي (6953)، والدرقطني (1814)، والمصنف لابن أبي شيبة (11504، 11505، 11508)، والترمذي (1077)

نمازِ جنازہ میں ثناء:

تمام نمازوں میں تکبیر تحریمہ کے بعد ثناء معروف (سبحانك اللهم إلخ) پڑھنا افضل ہے، سنن اربعہ، مسند احمد، دارمی اور سنن کبری وغیرہ میں مرفوعًا اس کی روایت موجود ہے۔ (انظر ما أخرجه أحمد: 3/69، 50،والدارمي (1242)، وأبو داؤد (775)،والترمذي (242)، والنسائي (899)، وابن ماجه (804)،والبيهقي في الكبرى(882، 883)) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا آخری عمل بھی یہی تھا، اس پر قرینہ خلفاء راشدین صحابہ رضی اللہ عنہم کا عمل ہے، بالخصوص حضرت عمر رضی اللہ عنہ لوگوں کو تعلیم دینے کے لیے "سبحانك اللهم إلخ"بالجہر پڑھتے تھے۔ (المسائل والدلائل للشيخ فيض أحمد، ص: 249)

لہذا کتاب الآثار اور مصنف وغیرہ کی روایت (جو کہ ابتداء میں ذکر کی گئی ہیں) میں بھی "الثناء علی الله” سے یہی معروف ثناء مراد ہوئی لأنه المعهود "هداية”۔

 

نمازِ جنازہ میں قرائت ہے اور نہ ہی تشہد، کسی صریح مرفوع حدیث میں قراء ت فاتحہ کا ذکر نہیں ملتا ہے، علامہ ابن رشد رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے جو نمازِ جنازہ میں قراء ت فاتحہ منقول ہے تو وہ احیاناً بہ نیتِ ثناء ودعاء پر محمول ہے، کیوں کہ ثناء مذکورہ الفاظ میں منحصر نہیں ہے۔

"ويمكن أن يحتج لمذهب مالك بظواهر الآثار التي تقل فيها دعاؤه عليه الصلاة والسلام على الجنائز، ولم ينقل فيها أنه قرأ".(بداية المجتهد، أحكام الميت، القراءة في صلاة الجنازة: 3/33، 34، عباس أحمد الباز)

حضرت عمر، حضرت علي، حضرت ابو هريرة اور حضرت عبد الله بن عمر رضي الله عنهم سے قراءت فاتحه پر انكار بھي منقول هے۔

"في  التجريد: "قال ابن بطال في شرح البخاري وكان عمر وابنه وعلي وأبو هريرة ينكرونه، وبه قال أبو حنيفة ومالك، وقال الطحاوي: من قرأها من الصحابة يحتمل أن يكون على وجه الدعاء لا التلاوة اھ".(اعلاء السنن، باب كيفية صلاة الجنازة: 8/211، إدارة القرآن والعلوم الإسلامية)

(وانظر أيضًا المصنف لابن أبي شيبة (11522-11532)، وكتاب الآثار لمحمد (236)، والمغني لابن قدامة: 2/366، (مسألة: 1557)

حضرت ابن عباس رضي الله عنه سے جو نماز جنازه ميں قراءت فاتحہ منقول ہے تو وه احيانا به نيت ثناء ودعاء پر محمول ہے، كيوں كه ثناء، مذكوره الفاظ ميں منحصر نهيں هے۔

نمازِ جنازہ میں درود:

مصنف اور آثار کی روایت میں ”صلاة علی النبي“ سے درود ابراہیمی مراد لینا زیادہ بہتر ہے، کیوں کہ درود ابراہیمی افضل درود ہے، جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کو دریافت کرنے پر سکھلایا، صحیح البخاری (کتاب أحادیث الأنبیاء، باب: 10 (3370) میں یہی معروف درود ابراہیمی موجود ہے۔

درود ابراہیمی میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کے نام سے پہلے "سیدنا” اور "کما بارکت إلخ”کے بعد "في العالمین” کا اضافہ بھی بہتر ہے۔

"وعليه أكمل الصلاة على النبي وآله: اللهم صل على سيدنا محمد وعلى آل سيدنا محمد، كما صلّيت على سيدنا إبراهيم، وعلى آل سيدنا إبراهيم (إنك حميد مجيد، اللهم) بارك على سيدنا محمد، وعلى آل سيدنا محمد، كما باركت على سيدنا إبراهيم، وعلى آل سيدنا إبراهيم في العالمين إنك حميد مجيد". (الفقه الإسلامي وأدلته، الصلاة على النبي صلي الله عليه وسلم: 2/208)

نمازِ جنازہ کی دعا:

نمازِ جنازہ کی مختلف دعائیں مروی ہیں، جو بھی ماثور دعا پڑھنا چاہیں پڑھ سکتے ہیں، بالغ مرد وعورت کے لیے ہمارے ہاں معمول "اللهم اغفر لحینا إلخ” پڑھنے کا ہے۔

"عن أبي سلمة عن أبي هريرة قال: كان رسول الله صلي الله عليه وسلم إذا صلى على الجنازة، قال: اللهم اغفر ليحنا وميتنا، وشاهدنا وغائبنا، وصغيرنا وكبيرنا، وذكرنا وأناثنا، اللهم من أحييته منا فأحيه على الإسلام، ومن توفيته منا فتوفه على الإيمان".

(مسند أحمد، مسند أبي هريرة: 2/368، (8591)، والسنن الكبرى (6971)، (وانظر أيضًا ما أخرجه أبو داؤد (3201)، والترمذي (1024)، وابن ماجه (1498)

نا بالغوں کے لیے بھی آثار میں مختلف الفاظ کے ساتھ دعائیں منقول ہیں، ہر طرح پڑھ سکتے ہیں، ہمارے ہاں معمول بچے کے لیے "اللهم اجعله لنا فرطًا إلخ” اور بچی کے لیے "اللهم اجعلها لنا فرطًا إلخ” پڑھنے کا ہے۔

"اللهم اجعله لنا فرطا، واجعله لنا أجرًا وذخراً، واجعله لنا شافعًا ومشفعاً".(الهداية، كتاب الصلاة، باب الجنائز: 1/180، شركت علمية)

"فأما إذا كان صبيًا فإنه يقول: اللهم اجعله لنا فرطًا وذخرًا، وشفعه فينا. كذا روي عن أبي حنيفة رحمه الله تعالي وهو المروي عن النبي صلي الله عليه وسلم".(بدائع الصنائع، الصلاة، كيفية الصلاة على الجنازة: 2/51، مؤسسة التاريخ)

"قال (عثمان بن جحاش): سمعت سمرة بن جندب – ومات ابن له صغير – فقال: اذهبوا به فادفنوه، ولا يصلي عليه، فإنه ليس عليه إثم، وادعوا الله لوالديه أن يجعله لهما فرطًا وأجرًا ونحوه".(المصنف لابن أبي شيبة، باب من قال: لا يصلي عليه: 112، (11720).(انظر أيضًا صحيح البخاري (باب: 65)، ومصنف عبد الرزاق (6588).فقط واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی

فتوی نمبر: 79/83