نسوار استعمال کرنے کا حکم

نسوار استعمال کرنے کا حکم

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام مندرجہ ذیل  مسئلہ کے بارے میں کہ نسوار کا حکم کیا ہے ؟ مباح، مکروہ، حرام ہے؟

نیز یہ ”کل مفتر حرام“ کے زمرے میں آتا ہے یا نہیں؟پوری وضاحت مطلوب ہے۔

جواب

واضح رہے کہ حدیث میں آیا ہے "نہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عن کل مسکرٍ ومفتر" اور مفتر کا معنی ہے: "ما یورث الفتر والخدر في الأطراف"یعنی وہ چیز جو اعضاء کو سست اور ڈھیلا کردے، اور ایسی چیز چوں کہ نشہ کا ذریعہ اور سبب بن جاتی ہے، اس لیے حدیث میں مسکر کے ساتھ ساتھ مفتر سے بھی منع کیا گیا ہے، لیکن نسوار میں نشہ نہیں ہوتا ہے، صرف حدّت ہوتی ہے، اور اس سے اعضاء میں ڈھیلا پن پیدا نہیں ہوتا ہے، اس لیے اسے حرام نہیں کہا جاسکتا ہے، البتہ اجتناب بہتر ہے۔

لما في بذل المجهود:

3686- "حدثنا سعيد بن منصور .... عن أم سلمة قالت: نهى رسول الله صلي الله عليه وسلم عن كل مسكرٍ ومفترٍ».

قال الخطابي رحمه الله، المفتر كل شراب يورث الفتور والخدر في الأطراف وهو مقدمة الكسر، نهى عن شرب لئلا يكون ذريعة إلى السكر". (كتاب الأشربة، باب ما جاء في السكر: 11/421، دار البشائر الإسلامية)

وفي الشامي:

"وفي الأشباه في قاعدة: الأصل الإباحة أو الوقف .... قلت: فيهم منه حكم النبات الذي شاع في زماننا المشي بالتتن فتنبه، وقد كرهه شيخنا العمادي في هديته الما قاله بالثوم والبصل بالأولى فتدبر..... قوله: فيفهم منه حكم النبات، وهو الإباحة على المختار أو التوقف، وفيه إشارة إلى عدم إسكاره وتفتيره وإضراره .... قال أبو السعود: فتكون الكراهة تنزيهة والمكروه تنزيها يجامع الإباحة، وقال ط.ويؤخذ منه كراهة التحريم في المسجد للنهي الوارد في الثوم والبصل وهو ما ملحق بهما". (كتاب الأشربة: 10/51، 52، دار المعرفة).فقط واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی

فتویٰ نمبر : 154/196