مہنگائی کے اسباب اور فرشتوں کا آکر اشیاء کی قیمتیں مقرر کرنے کے متعلق تحقیق

مہنگائی کے اسباب اور فرشتوں کا اشیاء کی قیمتیں مقرر کرنے کے متعلق تحقیق

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیان عظام اس مسئلہ کے ذیل میں کہ ایک بات مشہور ہے کہ مہنگائی کا سبب لوگوں کے گناہ ہیں اور فرشتے آکر اشیاء کی قیمتیں مقرر کرتے ہیں، اسلامی نقطہ نظر سے ان دونوں باتوں کی کیا حقیقت ہے؟

جواب

حضرات مفسرین رحمہم اللہ نے کتب تفسیر میں اس بات کو ذکر فرمایا ہے کہ مہنگائی کا ایک سبب لوگوں کے گناہ بھی ہیں، البتہ یہ کہنا کہ فرشتے آکر اشیاء کی قیمتیں مقرر کرتے ہیں، یہ کسی حدیث سے ثابت نہیں، نیز جن احادیث میں اس بات کا ذکر ہے اس کو حضرات محدثین رحمہم اللہ نے من گھڑت روایات میں سے قرار دیا ہے، کہ یہ احادیث نہیں ہیں، لوگوں نے انہیں حدیث کا نام دیا ہے۔
لما في تفسیر القرطبي:
’’قولہ تعالی: «ظھر الفساد في البر والبحر بما کسبت أیدي الناس لیذیقھم بعض الذي عملوا لعلھم یرجعون»۔۔۔۔۔۔ ظھرت المعاصي في البر والبحر فحبس اللہ عنھا الغیث وأغلی سعرھم لیذیقھم عقاب بعض الذي عملوا‘‘.(سورۃ الروم،رقم الآیۃ:41، ٧/ ٣٠: دار الکتب العلمیۃ بیروت)
وفي تفسیر ملا علي القاري:
’’قولہ تعالی: ظھر الفساد في البر والبحر، کالغلاء والربا وکثر الحرق والغرق ومحق البرکات وظھور الظلمات من الظلم والضلالات.(سورۃ الروم،رقم الآیۃ:41، ٤ / ١٥٦: دار الکتب العلمیۃ)
وفي کتاب الموضوعات لابن الجوزي:
’’أنبأنا محمد بن عبد الملک.....عن علي رضي اللہ عنہ قال: علا السعر بالمدینۃ فذھب أصحاب النبي صلی اللہ علیہ وسلم إلی النبي صلی اللہ علیہ وسلم فقالوا: یا رسول اللہ غلا السعر فسعر، فقال: إن اللہ عز وجل ھو المعطي وھو المانع، وإن للہ ملکا اسمہ عمارۃ علی فرس من حجارۃ الیاقوت طولہ مد بصرہ ویدور في الأمصار ویقف في الأسواق فینادی: ألا لیغلو کذا وکذا، ألا لیرخص کذا وکذا‘‘.
’’أنبأنا القزار أنبأنا أبو بکر......عن أنس رضي اللہ عنہ عن النبي صلی اللہ علیہ وسلم قال (إن للہ ملکا) فذکر نحوہ‘‘.........ھذان حدیثان لا یصحان.(کتاب البیع، باب ذکر سبب الغلاء والرخص، ٢/ ١٤٨، ١٤٩: دار الکتب العلمیۃ بیروت).فقط.واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب.
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی

فتویٰ نمبر:175/91