مویشی منڈی مالکان کا خریدار سے ٹیکس/کمیشن وصول کرنے کا حکم

مویشی منڈی مالکان کا خریدار سے ٹیکس/کمیشن وصول کرنے کا حکم

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام درج ذیل  مسئلہ کے بارے میں کہ:

آج کل مویشی منڈی میں جانور کا سودا طے کرنے کے بعد مشتری (خریدنے والا)بائع (بیچنے والا)سے کہتا ہے کہ یہ جانور میرے لئے کسی طریقے سے منڈی سے باہر نکال دیں، تاکہ منڈی کے ٹیکس سے بچ جاؤں۔
مفتی صاحب !شرعًا اس طرح جانور کو بغیر ٹیکس کے منڈی سے باہر نکالنا کیساہے؟جبکہ زید کا مؤقف یہ ہے کہ شرعا اس طرح دونوں کا یہ فعل ناجائز ہے ،اس کی وجہ سے قربانی کے ثواب پر بھی اثر پڑتا ہے اور قیامت کے دن اس رقم کے بارے میں پوچھ ہوگی۔

عمرو کا مؤقف یہ ہے کہ ان دونوں حضرات کے اس فعل سے نہ قربانی کے ثواب  پر اثر پڑے گا اور نہ ہی قیامت کے دن اس پر مؤاخذہ ہوگا، کیوں کہ منڈی میں صرف سودا طے ہوا اور باقاعدہ عقد بین البائع والمشتری (جو معاملہ خریدنے اور بیچنے والے کے درمیان ہوا)منڈی سے باہر ہوا ہے ۔مفتی صاحب !جمہور فقہائے احناف کے نزدیک ان دونوں میں کس کا مؤقف درست ہے؟

جواب

صورت مسئولہ  میں چوں کہ منڈی مالکان مشتری سے محض خریداری پر ٹیکس کے نام پر جو کمیشن لیتے ہیں، شرعًا یہ جائز نہیں ہے، اس لئے مشتری منڈی میں صرف سودا طے کرتاہے یا پھرباقاعدہ عقد مکمل کرنے کے بعد بائع سے طے کیا کہ جانور منڈی سے باہر نکال کر مجھے حوالہ کریں، تو بائع نے جانور منڈی سے باہر نکال کر (خواہ ٹیکس ادا کر کےیا بغیر ٹیکس ادا کئے) مشتری کے حوالہ کردیا، لہٰذا بائع کے اس عمل کی وجہ سےمشتری پر مؤاخذہ نہیں ہوگا اور اس کی قربانی کے ثواب پر بھی کوئی اثر نہیں پڑے گا۔

لما في الشرح المجلة:
’’اذا بيع مال على أن يسلم في محل كذا، لزم لتسليمه في المحل المذكور.... وبهذا ان قول المحله ”لزم تسليمه في المحل المذكور“ محمول على ما اذا كان ذلك المحل المشروط فيه التسليم في المصر الذي فيه المبيع.... اللهم إلا أن يكون هذا الشرط قد صار معتبرًا، والبيع به صحيحًا في جمع الصور“. (الباب الخامس في بيان المسائل المتعلقه بالتسليم والتسلم،۲۱۸/۲: بيروت).
وفي الهنديه:
’’ولتسليم المبيع هو أن يكون بين المشترى على وجه يتمكن المشترى من قبضه بغير حائل.... رجل اشترى بقرة فقال للبائع: سقها إلى منزلك حتى أجيء خلفك إلى منزلك واسوقها إلى منزلى، فماتت البقرة في يد البائع، فإنها تهلك من مال البائع، فإن ادعى البائع تسليم البقرة، كان القول قول المشترى مع يمينه“. (كتاب البيع: ۳/ ۱۹-۲۲: بيروت).فقط.واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب.

فتویٰ نمبر: 350/ 173

دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی