مقتدی اور امام کے درمیان کتنا فاصلہ ہونا چاہیے؟

مقتدی اور امام کے درمیان کتنا فاصلہ ہونا چاہیے؟

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ہمارے یہاں تو امام او رعورتوں کے درمیان بہت دوری ہوتی ہے، بیچ میں میدان ہے جو بیس فٹ ہوگا اور ایک چھوٹا راستہ بھی ہے ،جس میں کار آسانی کے ساتھ جاسکتی ہے اس راستہ سے آدمی بھی گزرتے ہیں یہ مسجد کے سیدھی طرف ہے اور اس کے بعد ایک گھر میں عورتیں تراویح پڑھتی ہیں اور رمضان میں عشا اور وتر کی نماز بھی اسی امام کی اقتداء میں پڑھتی ہیں۔

جواب

واضح رہے کہ امام اور مقتدیوں کے درمیان اتصال ضروری ہے، اگر ان کے درمیان اتنا فاصلہ ہو جس میں گاڑی آسانی سے گزر سکے، یا بڑی نہر ہو، تو ان مقتدیوں کی نماز اس امام کے پیچھے درست نہیں ہوگی، صورت مسئولہ میں چونکہ امام اور عورتوں کے درمیان فاصلہ زیادہ ہے، لہذا ان عورتوں کی نماز اس امام کے پیچھے درست نہیں ہوگی، چاہے تراویح ہو یا کوئی اور نماز۔
لما في الدر مع الرد:
’’(ویمنع من الاقتداء) صف من النساء بلا حائل.... أو (طریق تجري فیہ عجلۃ) آلۃ یجرھا الثور (أو نہر تجري فیہ السفن) ولو زورقا ولو في المسجد (أو خلاء) أي فضاء (في الصحراء) أو في مسجد کبیر جدا کمسجد القدس (یسع صفین) فأکثر‘‘. (کتاب الصلاۃ، مطلب الکافي للحاکم محمد: 398/2، رشیدیۃ).فقط.واللہ تعالٰی اعلم بالصواب.
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتویٰ نمبر:183/200