مقتدیوں کےقعدہ اولیٰ ترک کرنے سے ان کی نماز کا حکم

مقتدیوں کےقعدہ اولیٰ ترک کرنے سے ان کی نماز کا حکم

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام مندرجہ ذیل  مسئلہ کے بارے میں کہ ایک دو منزلہ مسجد میں ظہر کی نماز باجماعت ادا کی جارہی تھی۔ دوسری رکعت میں امام صاحب نے تکبیر کی اور قعدہ اولیٰ کے لیے بیٹھ گئے۔ لیکن امام صاحب نے نکبیر میں آواز کو اتنا لمبا کیا جیسا کہ عام طور پر سجدہ یا قعدہ سے قیام کی طرف منتقل ہوتے وقت کیا جاتا ہے اس سے اوپر والوں وک مغالطہ ہو گیا او رامام کی متابعت کے بجائے سب کھڑے ہو گئے۔ امام صاحب کی تیسری رکعت کے لیے تکبیر کہنے پر اوپر والوں کو اپنے مغالطہ پر آگاہی ہوئی۔ بقیہ نماز امام کی تابعت میں پوری کرنے کے بعد اوپر والوں میں سے بعض نے سجدہ سہو کیا اور بعض نے نماز دوبارہ پڑھ لی۔ اب دریافت ںلب امر یہ ہے کہ ایسی صورت میں اوپر والوں کی نماز ہو گئی ہے اور سجدہ سہو کرنے والوں اور نہ کرنے والوں کی نماز کا کیا حکم ہے؟

جواب

جن مقتدیوں سے قعدہ اولیٰ رہ گیا ہے ان پر نماز کا اعادہ ضروری ہے، صرف سجدہ سہو کر لینے سے نماز درست نہیں ہو گی۔

"(سها عن القعود الأول من الفرض) ولو عمليا، أما النفل فيعود ما لم يقيد بالسجدة (ثم تذكره عاد إليه) وتشهد، ولا سهو عليه في الأصح (ما لم يستقم قائما) في ظاهر المذهب، وهو الأصح فتح (وإلا) أي وإن استقام قائما (لا) يعود لاشتغاله بفرض القيام (وسجد للسهو) لترك الواجب (فلو عاد إلى القعود) بعد ذلك (تفسد صلاته) لرفض الفرض لما ليس بفرض وصححه الزيلعي (وقيل لا) تفسد لكنه يكون مسيئا ويسجد لتأخير الواجب (وهو الأشبه) كما حققه الكمال وهو الحق بحر، وهذا في غير المؤتم؛ أما المؤتم فيعود حتما وإن خاف فوت الركعة لأن القعود فرض عليه بحكم المتابعة سراج. وظاهره أنه لو لم يعد بطلت بحر. قلت: وفيه كلام. والظاهر أنها واجبة في الواجب فرض في الفرض نهر."( الدرالمحتار مع الرد، کتاب الصلوٰۃ ٢/٨٤،٨٥، سعید).فقط واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی