مسلمان ڈاکٹر کے لیے کسی مریض کو خنزیر کے دل لگانے کی سرجری (آپریشن) کرنے کا حکم

مسلمان ڈاکٹر کے لیے کسی مریض کو خنزیر کے دل لگانے کی سرجری (آپریشن) کرنے کا حکم

سوال

امریکہ میں زینوٹرانسپلانٹیشن سرجری کے ذریعے ایک غیر مسلم شخص کو سوٴر کا دل لگایا گیا، سرجری کی ٹیم میں ایک پاکستانی نژاد امریکی مسلم ڈاکٹر بھی ہے، کیا مذہب اسلام کس طرح کی سرجری کی ایک مسلمان کے لیے اجازت دیتا ہے؟ برائے مہربانی قرآن وسنت کی روشنی میں جواب دیجیے، کیوں کہ مختلف مکتبہ فکر کے دار الافتاء کی تشریحات بھی ویب سائٹ پر آ رہی ہیں جو کہ الگ ایک لمحہ فکریہ ہے۔

سوٴر کا دل کسی انسان کو لگانے سے متعلق مذہبی، طبی اور حقوق کی بحث

بی بی سی نیوز

12 جنوری 2022

کسی انسان کو پہلی مرتبہ سوٴر کا دل لگانے کا یہ کارنامہ یونیورسٹی آف میری لینڈ میں سر انجام دیا گیا۔

ایک امریکی شخص دنیا کے پہلے ایسے شخص بن گئے ہیں جنہیں سوٴر کا جینیاتی طور پر تبدیل شدہ دل لگایا گیا ہے۔

ستاون سالہ ڈیوڈ بینیٹ کے بارے میں ڈاکٹروں کا کہنا تھا کہ وہ اتنے صحت مند تو نہیں جتنا انسانی دل حاصل کر کے ہوسکتے تھے مگر اب سات گھنٹے طویل تجرباتی علاج کے تین دن بعد بھی وہ کافی بہتر محسوس کر رہے ہیں۔

اس سرجری کو نہایت اہم طبی پیش رفت قرار دیا جا رہا ہے کیوں کہ اس سے ٹرانسپلانٹ کے لیے انتظار کا وقت کم ہوجائے گا اور دنیا بھر میں مریضوں کی زندگیاں بدل جائیں گی۔ مگر کچھ لوگ ایسے علاج کے اخلاقی جواز پر بھی سوال کر رہے ہیں۔

تنقید کرنے والے ایسے ٹرانسپلانٹس سے مریضوں کے تحفظ، جانوروں کے حقوق اور مذہبی خدشات کا اظہار کر رہے ہیں۔

آئیے دیکھتے ہیں کہ سوٴروں کے دل انسانوں کو لگانے میں کیا تنازع ہے۔

طبی اثرات

یہ ایک تجرباتی سرجری تھی اور اس میں مریض کے لیے خطرہ بھی ہوسکتا ہے۔ انسانوں کے عطیہ کردہ وہ اعضاء جو وصول کنندہ کے جسم سے میچ کر چکے ہوتے ہیں وہ بھی کبھی کبھی جسم مسترد کردیتا ہے اور جانوروں سے حاصل کردہ اعضاء میں خطرہ زیادہ ہے۔

ڈاکٹر کئی دہائیوں سے زینو ٹرانسپلانٹیشن نامی اس تکنیک کے ذریعے جانوروں کے اعضاء انسانوں کو لگانے کی کوشش کر رہے ہیں جس میں ملی جلی کامیابی حاصل ہوئی ہے۔

سنہ 1984ء  میں کیلیفورنیا کے ڈاکٹروں نے ایک شیر خوار بچی کو لنگور کا دل لگایا تھا مگر اس کی 21 دن کے بعد موت ہوگئی تھی۔

لیکن اس طرح کے علاج میں موجود خطرے کے باوجود ماہرین طبی اخلاقیات کا کہنا ہے کہ اگر مریض کو ان خطرات کا علم ہو تو یہ علاج ہونے چاہئیں۔

یونیورسٹی آف آکسفرڈ کے پروفیسر جو لیئن سیو لیسکو کا کہنا ہے کہ آپ کو کبھی معلوم نہیں ہوسکتا کہ کسی شخص کی علاج کے فورا بعد افسوس ناک طور پر موت ہوجائے لیکن آپ خطرہ اٹھانے بغیر آگے بھی نہیں بڑھ سکتے۔

وہ کہتے ہیں کہ ”اگر مذکورہ فرد (اس سے منسلک) تمام خطرات سے مکمل طور پر آگاہ ہو تو میرا خیال ہے کہ لوگوں کو اس طرح کے منفرد تجربات کا حصہ بننے کی اجازت ہونی چاہئے“۔

پروفیسر سیوولیسکو کہتے ہیں کہ یہ اہم ہے کہ انہیں تمام دستیاب آپشنز کے بارے میں بتایا جائے جن میں مصنوعی دل یا انسانی دل شامل ہیں۔ ڈیوڈبینیٹ کے کیس پر کام کرنے والے ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ اس آپریشن کا جواز موجود تھا کیوں کہ اس کے علاوہ ان کے پاس علاج کے دیگر آپشنز موجود نہیں تھے اور یہ کہ اس کے بغیر ان کی موت ہوجاتی۔

ڈیوڈبینیٹ (دائیں) کے بارے میں کہا جارہا ہے کہ وہ سرجری کے بعد بہتر محسوس کر رہے ہیں۔

پروفیسر سیوولیسکو کا کہنا ہے کسی بھی سرجری سے قبل اس کو مکمل طور پر محفوظ بنانے کے لیے ”بافتوں کی سخت ترین ٹیسٹنگ اور کسی جانور پر ٹیسٹنگ” کی جانی چاہیے۔

ڈیوڈبینیٹ کا ٹرانسپلانٹ کسی کلینیکل آزمائش کے طور پر نہیں تھا جو کہ تجرباتی علاج کے لیے ضروری ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ انھیں جو دوائیں دی گئی تھیں، انھیں اب تک انسانوں کے علاوہ موجود حیوانات رئیسہ یعنی بندروں، لنگوروں یا بن مانسوں میں نہیں آزمایا گیا ہے۔ مگر میری لینڈ سکول آف میڈیسن کی ڈاکٹر کرسٹین لاوٴجو ڈیوڈ بینیٹ کے علاج کی منصوبہ بندی میں شامل تھیں، ان کا کہنا ہے کہ اس آپریشن کی تیاری میں کوئی کسر نہیں چھوڑی گئی تھی۔

انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ”ہم نے یہ کام لیبارٹری میں بندروں پر کئی دہائیوں تک کیا ہے اور اس نقطے تک پہنچنے کی کوشش کی جہاں یہ علاج کسی انسان کو فراہم کرنا محفوظ ہو”۔

جانوروں کے حقوق

اس علاج نے انسانوں میں اعضاء کی منتقلی کے لیے سوٴروں کے استعمال پر ایک مرتبہ پھر بحث چھیڑ دی ہے اور انسانوں کے حقوق کے کئی گروہ اس کے مخالف ہیں۔

پیپل فار ایتھیکل ٹریٹمنٹ آف اینیملز (پیٹا) نامی تنظیم نے ڈیوڈ بینیٹ کو سوٴر کا دل لگانے کو ”غیر اخلاقی“ خطرناک، اور وسائل کا بے تحاشہ زیاں قرار دیا ہے۔

پیٹا کا کہنا ہے کہ ”جانور اوزاروں کی کوئی دکان نہیں جنہیں لوٹ لیا جائے، بلکہ یہ پیچیدہ اور ذہین جاندار ہوتے ہیں”۔

جانوروں کے حقوق کے لیے سر گرم کارکنوں کا کہنا ہے کہ جانوروں کے جینز میں تبدیلی کر کے انھیں انسانوں کے قریب لانا غلط ہے۔ واضح رہے کہ جس سوٴر کا دل ڈیوڈبینیٹ کا لگایا گیا، اس کے 10 جینز میں تبدیلی کی گئی تھی تا کہ ڈیوڈ کا جسم اس دل کو مسترد نہ کردے۔ آپریشن کی صبح سوٴر کا دل نکال لیا گیا تھا۔

جانوروں کے حقوق کی ایک برطانوی تنظیم اینیمل ایڈ کے ترجمان نے بی بی سی کو بتایا کہ تنظیم ”ہر حال میں“ جانوروں کے جینز میں تبدیلی کرنے یا زینو ٹرانسپلانٹس کے خلاف ہے۔

تنظیم کا کہنا ہے کہ “جانوروں کے جینے کا حق ہے، اس درد اور صدمے کے بغیر جو جینیاتی تبدیلی سے انھیں پہنچتا ہے، اور اس کے بعد انھیں مار کر اور ان کے اعضاء حاصل کر لیے جاتے ہیں”۔

آکسفرڈ یونیورسٹی میں حیاتیاتی اخلاقیات کی فلیو ڈاکٹر کیٹرین ڈیوولڈر کہتی ہیں کہ ”ہمیں جینیاتی تبدیلیوں والے سوٴروں کے اعضاء صرف تب استعمال کرنے چاہییں جب ہم یقینی بنا سکیں کہ انھیں غیر ضروری نقصان نہیں پہنچے گا”۔

وہ کہتی ہیں کہ ”گوشت کے حصول کے لیے سوٴروں کا استعمال جان بچانے کے لیے ان کے استعمال سے کہیں زیادہ پریشان کن ہے لیکن یہاں بھی جانوروں کی بہبود کو نظر انداز کرنے کی کوئی وجہ موجود نہیں ہے”۔

سوٴروں میں جینیاتی تبدیلی کر کے انھیں اعضاء کے حصول کے لیے پروان چڑھایا جاتا ہے۔

مذہب

اس کے علاوہ ان لوگوں کے لیے بھی پریشانی ہوسکتی ہے جنہیں جانوروں سے اعضاء حاصل کرنے میں مذہبی پابندیوں کا سامنا ہوگا۔

سوٴروں کو اس لیے منتخب کیا جاتا ہے کیوں کہ ان کے اعضاء کا سائز انسانی اعضاء کے قریب ہوتا ہے اور سوٴروں کی افزائش اور پرورش کرنا آسان ہے۔

مگر سوٴروں کے حوالے سے سخت پابندیوں کے حامل مذاہب یہودیت اور اسلام کے ماننے والوں پر اس کے کیا اثرات مرتب ہوں گے؟

ویسے تو یہودی مذہبی قانون میں سوٴروں کی پرورش اور انھیں کھانے پر پابندی ہے مگر لندن کے ایک سینئر ربی ڈاکٹر موشے فریڈ مین کا کہنا ہے کہ سوٴر سے دل کا حصول ”یہودی ضوابط خوراک کی کسی بھی طرح خلاف ورزی نہیں ہے“۔

ڈاکٹر موشے فریڈ مین برطانوی محکمہ صحت کے اخلاقی مشاورتی گروپ (ایم ای اے جی) کے بورڈ میں بھی ہیں۔

انہوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ”چونکہ یہودی قانون میں بنیادی اہمیت انسانی جان بچانے کی ہے اس لیے اگر جانور سے اعضاء کا حصول کسی انسان کو جینے کا بہترین امکان اور مستقبل میں بہترین معیارِ زندگی فراہم کرسکتا ہے تو کسی یہودی مریض پر کسی جانور سے عضو کا حصول لازم ہوجائے گا“۔

مصر کے دار الافتاء نے اپنے ایک فتوے میں کہا ہے کہ اگر ”مریض کی زندگی ختم ہونے، اس کے کسی عضو کی نا کامی، مرض کے پھیلنے اور شدید تر ہونے، یا جسم کو شدید نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہو، تو سوٴر کے دل کے والو انسان کو لگائے جاسکتے ہیں۔

دوسری جانب پروفیسر سیوولیسکو کا کہنا ہے کہ اگر کوئی شخص مذہبی یا اخلاقی بنیادوں پر جانور سے اعضا کی وصولی سے انکار بھی کردے، تب بھی انہیں انسانوں سے اعضا کے حصول کے لیے انتظار کی فہرست میں کم ترجیح نہیں دی جانی چاہیے۔

وہ کہتے ہیں کہ ”کچھ لوگ کہیں گے کہ آپ کو ایک مرتبہ ٹرانسپلانٹ کا موقع ملا تھا، اب آپ فہرست میں نیچے جائیں، مگر کچھ لوگ کہیں گے کہ آپ کا بھی اتنا ہی حق ہونا چاہیے جتنا کہ دوسروں کا“۔

پروفیسر سیوولیسکو کے مطابق یہ وہ موٴقف ہیں جن کے ساتھ مفاہمت کرنی پڑے گی“۔

جواب

اس بات میں کوئی شبہ نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو اپنی عبادت کے لیے پیدا فرمایا ہے، اور اس کو زمین میں اپنا خلیفہ اور نائب مقرر کیا ہے، اسی طرح اس کے نظام زندگی کے تمام احکامات اس کو بتلائے ہیں، اور ساتھ ہی ساتھ اس کو تمام کائنات ومخلوقات میں اشرف المخلوقات ہونے کے شرف سے بھی نوازا ہے، چناں چہ اللہ تعالیٰ نے انسان پر احسان اور کرم کرتے ہوئے اس کے نفع اور فائدے کے لیے یہ کائنات اور اس میں بے شمار چیزی بھی پیدا کی ہیں، ان چیزوں میں ایک چیز حیوان بھی ہے، جس سے انسان کا نفع اور فائدہ حاصل کرنا بنسبت دوسری چیزوں کے زیادہ ہے، البتہ نفع اور فائدے کے لحاظ سے حیوانات میں بھی فرق ہے، بعض حیوانات ایسے ہیں، جن سے انسان بلا واسطہ فائدہ حاصل کرتا ہے، اور بعض ایسے ہیں، جن سے بالواسطہ فائدہ حاصل کرتا ہے، اور شرعا ان سے فائدہ حاصل کرنا جائز بھی ہو، اور بعض جانور ایسے ہیں،جن سے عام حالات میں انسان کے لیے فائدہ حاصل کرنا سوائے حالت اضطرار کے شرعاً جائز نہیں، جیسے:خنزیر، کیوں کہ یہ نجس العین اور حرام ہے، اس لیے کہ قرآن کریم اور احادیث مبارکہ میں اس کے نجس اور حرام ہونے پر متعدد آیات اور احادیث وارد ہوئی ہیں، اور اسی طرح فقہائے امت کا اس پر اجماع ہے، کہ خنزیر نجس اور حرام ہے، اور اس سے فائدہ حاصل کرنا جائز نہیں۔

لہٰذا مذکورہ بالا تمہید کی روشنی میں یہ بات ثابت ہوتی ہے، کہ خنزیر حرام اور نجس العین ہے، اس لیے کسی مسلمان کے لیے بحیثیت معالج وڈاکٹر یہ جائز نہیں کہ وہ کسی مریض کو خنزیر کا دل لگائے اور اس کا علاج کرے، البتہ اگر خنزیر کے علاوہ کوئی ایسا حلال جانور نہ ہو، کہ اس کی اعضا جیسے دل لگانے وغیرہ سے اس کا علاج کیا جاسکے، تو ایسی صورت میں کسی مسلمان کے لیے بحیثیت معالج وڈاکٹر کسی مریض کو خنزیر کا دل لگا کر اس کا علاج کرنا چار شرائط کے ساتھ جائز ہے، جو مندرجہ ذیل ہیں:

۱۔ خنزیر کے علاوہ کوئی ایسا حلال حیوان نہ ہو کہ اس کے اعضاء جیسے دل وغیرہ سے اس کا علاج ممکن ہو۔

۲۔ حالت اضطراری ہو کہ مریض کو خنزیر کا دل نہ لگانے سے اس کی جان کا خطرہ ہو۔

۳۔ یہ خطرہ محض موہوم نہ ہو، بلکہ کسی ماہر مسلمان طبیب کے کہنے کی بناء پر عادةً یقینی جیسا ہو۔

۴۔ مریض کو خنزیر کا دل لگانے سے جان بچ جانا بھی کسی ما ہر مسلمان طبیب کی تجویز سے عادةً یقینی جیسا ہو۔

لہٰذا مذکورہ بالا شرائط کی موجودگی میں کسی مسلمان معالج وڈاکٹر کے لیے اس طرح کا علاج کرنا شرعًا جائز ہے، ورنہ نہیں۔

نوٹ: یہ صرف ایک اصولی جواب ہے، چوں کہ اس کا تجربہ کا اب تک شیوع نہیں ہوا کہ اس تبدیلی سے جان کا بچنا یقینی درجہ میں ہو، اس لیے اس طرح کا علاج کرنے سے اجتناب لازم ہے۔

لما في القرآن الكريم:

﴿إِنَّمَا حَرَّمَ عَلَيۡكُمُ ٱلۡمَيۡتَةَ وَٱلدَّمَ وَلَحۡمَ ٱلۡخِنزِيرِ وَمَآ أُهِلَّ بِهِۦ لِغَيۡرِ ٱللَّهِۖ فَمَنِ ٱضۡطُرَّ غَيۡرَ بَاغٖ وَلَا عَادٖ فَلَآ إِثۡمَ عَلَيۡهِۚ إِنَّ ٱللّٰهَ غَفُورٞ رَّحِيمٌ 173﴾. (سورة البقرة: 173)

وفي رد المحتار:

«يجوز للعليل شرب البول والدم والميتة للتداوي إذا أخبره طبيب مسلم أن فيه شفاءه ولم يجد من المباح ما يقوم مقامه، وإن قال الطبيب: يتعجل شفاؤك به فيه وجهان: وهل يجوز شرب العليل من الخمر للتداوي؟ فيه وجهان: كذا ذكره الإمام الترمتاشي، وكذا في الذخيرة. وما قيل: إن لاستشفاء بالحرام حرام غير مجري على إطلاقه، وأن الاستشفاء بالحرام إنما لا يجوز إذا لم يعلم أن فيه شفاء، أما إذا علم وليس له دواء غيره يجوز». (كتاب البيوع، مطلب: في التداوي بالمحرم: 7/508، رشيدية)

وفي حاشية الطحطاوي على الدر المختار:

«ونقل الحموي: إن لحم الخنزير لا يجوز به التداوي، وإن تعين ولو اختلط بغيره ولو كان الغير غالبًا عليه». (كتاب الطهارة، باب المياه: 1/554، دار الكتب العلمية بيروت)

وفي «رد المحتار»:

«ونقل الحموي: أن لحم الخنزير لا يجوز التداوي به وإن تعين، وقال العلامة الرافعي: تحت قوله: (ونقل الحموي أن لحم الخنزير) يظهر أن ما نقله عن الحموي مبني على قول الإمام من عدم جواز التداوي بالمحرم لا على مقابله من الجواز ولا يظهر الفرق بين الحنزير وغيره». (كتاب الطهارة، مطلب: في التداوي: 1/406، رشيدية)

وفي تكملة «فتح الملهم»:

«وأما الحنفية فقد اختلفت أقوال علماءهم في المسئلة فالمشهور عن أبي حنيفة رحمه الله أنه لا يجوز التداوي بالمحرم ... ولكن أكثر مشايخ الحنفية أفتوا بجواز التداوي بالحرام إذا أخبره طبيب حاذق بأن المريض ليس له دواء آخر ... وحاصل ما ذكره أن مشايخ الحنفية أفتوا بقول أبي يوسف رحمه الله في جواز التداوي فيما إذا لم يعلم الطبيب له دواء آخر. ولم أجد: هل اشترط الإمام أبو يوسف رحمه الله ذلك في مذهبه أولا، والظاهر مما نقله السرخسي وابن نجيم أنه يرى جواز التداوي مطلقًا، ولكن المشايخ إنما اختاروا قوله في صورة خاصة، وهي إذا لم يعلم الطبيب دواء سوى ذلك». (كتاب القسامة والمحاربين والقصاص، مسئلة التداوي بالمحرم: 2/302، 303، دار العلوم كراتشي)

وفي «الهندية»:

«وإذا كان برجل جراحة يكره المعالجة بعظم الخنزير والإنسان لأنه يحرم الانتفاع به». (كتاب الكراهية، الباب الثامن عشر في التداوي: 5/409، دار الفكر)

وفي المحيط البرهاني:

«وإنما لم يجز الانتفاع بعظم الخنزير والآدمي أما الخنزير فلأنه نجس العين بجميع أجزائه، والانتفاع بالنجس حرام». (كتاب الكراهية والاستحسان، الفصل 19 في التداوي والمعالجات وفيه العزل والإسقاط: 5/81، إدارة القرآن)

وفي «الفتاوى التاتارخانية»:

«وفي اليتمة: سئل يوسف بن محمد والحسن بن علي المرغيناني عن المريض، إذا قال الطبيب: لا بد لك من أن تأكل لحم الخنزير حتى تدفع عنك العلة، هل له أن يأكل، فقال: لا يحل، فقيل: هل نفترق الحال بينما إذا أمره بأكله منفردًا، وبينما إذا أمره أن يجعل في دواء فقال: لا فرق، قيل لهما: ولو كان الحلال أكثر، فقال: لا فرق». (كتاب الكراهية، الفصل 12 في الكراهة في الأكل وما يتصل به: 18/146، 147، فاروقية)

وفي «البحر الرائق»:

«وفي اليتمة: سئل أبو يوسف بن محمد والحسن بن علي عن مريض قال له طبيب: لا بد لك من أكل لحم الحنزير حتى يدفع عنك العلة، قالا: لا يحل له أكله. وقيل: هو يفرق الأمر بينهما إذا أمره بأكله أو جعله في داره، فقالا: لا. قيل: ولو كان الحلال أكثر؟ قالا: وقياس الإفتاء في شرب الخمر للتداوي أنه يجوز في لحم الحنزير». (كتاب الكراهية، فصل: في الأكل والشرب: 8/339، رشيدية).فقط واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی

فتویٰ نمبر : 172/71