مسجد کو چھوڑ کر مدرسہ میں جماعت کے ساتھ نماز پڑھنا

مسجد کو چھوڑ کر مدرسہ میں جماعت کے ساتھ نماز پڑھنا

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ایک جامع مسجد کی حدود سے باہر مسجد کے قریب ایک مدرسہ ہے اور مدرسہ والے اپنے طلباء کے لئے دو وجہوں سےمدرسہ میں جماعت کراتے ہے:ایک یہ کہ مسجد کے نمازیوں کی توجہ میں خلل نہ ڈالا جائے، بوجہ شیطانت کی، اور دوم یہ کہ مسجد کے آداب کاخیال نہ کرنے کی وجہ سے، اور طلباء میں مقیم اور غیر مقیم، بالغ اور غیر بالغ دونوں قسم کے ہیں، کیا ان کی یہ جماعت کرانا درست ہے؟ اور اس جماعت کے لئے ایک اذان دی جائے یا مسجد والی بھی کافی ہے؟

جواب

صورت مسئولہ میں جو لڑکے بالغ ہیں ان کا مسجد کو چھوڑ کر مستقل مدرسہ میں جماعت کے ساتھ نماز پڑھنا درست نہیں ہے، مسجد ہی میں جماعت کے ساتھ نماز ادا کریں، باقی جو بچے نا بالغ ہیں، اگر ان کو سنبھالنے کا کوئی انتظام کیا جاسکتا ہو، جس سے نماز میں خلل نہ ہو اور آداب کی رعایت کی جاسکتی ہو، تو نابالغ بچوں کو بھی مسجد میں نماز پڑھانا بہتر ہے، وگر نہ ان کے لئے مدرسہ میں جماعت کے ساتھ نماز پڑھنا درست ہے۔
نیز مدرسہ میں جماعت کے ساتھ نماز پڑھنے کی صورت میں محلے کی اذان کافی ہے۔
لما في رد المحتار:
”ويحرم إدخال صبیان، ومجانین حیث غلب تنجیسهم، وإلا، فيكره‘‘.
’’وقال الرافعي:قول الشارح:(وإلا فيكره) أي: حيث لم يبالوا بمراعاة حق المسجد من مسح، أو تفل في المسجد، وإلا فإذا كانوا مميزين ويعظمون المساجد بتعلم من وليهم، فلا كراهة في دخولهم“.(كتاب الصلاة: 518/2:رشيدية)
وفي الهندية:
”وإن كان في كرم أو ضيعة يكتفى بأذان القرية أو البلدة إن كان قريبا، وإلا فلا،وحد القريب: أن يبلغ الأذان إليه منها كذا في مختار الفتاوى، وإن أذنوا كان أولى كذا في الخلاصة“.(كتاب الصلاة، الفصل الأول في صفته وأحوال المؤذن: 111/1:دار الكتب العلمية)
وفي حاشية الطحطاوي:
”قوله (أو امرءة) لو صلى في بيته بزوجته أو جاريته أو ولده فقد أتی بفضيلة الجماعة ولكن فضيلة المسجد أتم“.(كتاب الصلاة، باب الإمامة: 287:رشيدية).فقط.واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب.
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتویٰ نمبر:176/346