مسجد میں حیلہ تملیک کے ذریعے زکوٰۃ کی رقم استعمال کرنے کا حکم

Darul Ifta

 مسجد میں حیلہ تملیک کے ذریعے زکوٰۃ کی رقم استعمال کرنے کا حکم

سوال

کیافرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ مسجد پر زکوٰۃ کے مال کی تملیک کروا کر استعمال کرنا کیسا ہے؟ اور مسجد کی حدود سے کون سی حدود مراد ہیں، آیا مسجد کے کمرے سے باہر وضو خانہ، بیت الخلاء اور باہر کی چاردیواری جو مسجد کے کمرے کی دیواروں کے علاوہ ہے، وہ مسجد کی حدود میں ہے یا باہر ہے؟

جواب

زکوٰۃ کی ادائیگی کے لیے مالک بنانا شرط ہے، اس لیے مسجد وغیرہ کی تعمیر میں زکوٰۃ کی رقم خرچ کرنا (بغیر تملیک کے) درست نہیں، البتہ زکوٰۃ کی رقم سے مسجد کی تعمیر کے لیے تملیک مذکورہ طریقوں میں سے پہلے طریقے پر عمل کیا جائے۔
نیز عرف عام میں مسجد کے پورے احاطے کو مسجد ہی کہا جاتا ہے، لیکن شرعی اعتبار سے پورا احاطہ مسجد ہونا ضروری نہیں، بلکہ شرعاً صرف وہ حصہ مسجد ہوتا ہے جسے بانی  مسجد نے مسجد قرار دے کر وقف کیا ہو، یعنی نماز پڑھنے کے سوا اس سے کچھ مقصود نہ ہو، لیکن تقریباً ہر مسجد میں کچھ حصہ ایسا ہوتا ہے جو مصالح مسجد (وضو خانہ، استنجاء کی جگہ، نماز جنازہ پڑھنے کی جگہ، امام کا کمرہ وغیرہ) کے لیے وقف ہوتا ہے، اس حصے پر شرعاً مسجد کے احکام جاری نہیں ہوتے۔
لما في الھندیۃ:
’’وکذلک في جمیع أبواب البر التي لایقع بھا التملیک کعمارۃ المساجد، وبناء القناطر والرباطات، لایجوز صرف الزکاۃ إلی ھذہ الوجوہ، والحیلۃ: أن یتصدق بمقدار زکاتہ علی فقیر، ثم یأمرہ بعد ذلک بالتصرف إلی ھذہ الوجوہ، فیکون المتصدق ثواب الصدقۃ ولذلک الفقیر ثواب بناء المسجد والقنطرۃ‘‘. (کتاب الحیل، الفصل الرابع في الصوم: 395/6، دارالفکر بیروت)
(وکذا في البحر : کتاب الزکاۃ، باب المصرف:424/2، رشیدیۃ)
وفي التنویر:
’’ھي تملیک جزء مال عینہ الشارع من مسلم فقیر غیر ھاشمي ولا مولاۃ إلخ‘‘.(کتاب الزکاۃ: 203/3، رشیدیۃ).فقط.واللہ اعلم بالصواب.
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتویٰ نمبر:178/208

footer