مسافرکو جب پندرہ دن ٹھہرنے کے متعلق تردد ہو تو قصر کا حکم

مسافرکو جب پندرہ دن ٹھہرنے کے متعلق تردد ہو تو قصر کا حکم

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام مندرجہ ذیل  مسئلہ کے بارے میں کہ وہ فوجی جو حاضری ڈیوٹی ہے، کیا ڈیوٹی کے دوران نماز قصر پڑھے گا یا پوری پڑھے گا، فوجی جوان کو یہ خبر نہیں کہ وہ یہاں کتنے دن قیام کریں گے اور یہ ان کے افسر کو بھی معلوم نہیں ہوتا کہ کون سا فوجی یہاں کتنے دن قیام کرے گا، اگر پوری یونٹ کسی علاقہ کے لیے متعین ہو جائے تو یونٹ میں شامل فوجیوں کو علاقہ کی مختلف چھاؤنیوں میں تبدیل کرتے رہتے ہیں ،یعنی کسی کو معلوم نہیں ہوتا  کہ کتنے دن قیام کریں گے ،حالت جنگ او رحالت امن ان کے لیے ایک ہے یا کچھ فرق ہے،برائے مہربانی جواب سے نوازیں؟

جواب

فوجیوں کو حالت جنگ میں نماز قصر پڑھنی چاہیے،اس میں اگر اقامت کی نیت کرے تو یہ نیت معتبر نہیں او رحالت امن میں اگر ایک ہی جگہ ایک ہی مکان میں پندرہ دن ٹھہرنے کی نیت کرے تو اس وقت پوری نماز پڑھنی ہو گی او راگر معاملہ ترد دکا ہو یعنی کسی کومعلوم نہ ہو کہ کتنے دن ٹھہرنا ہے تو ایسی حالت میں نماز قصر پڑھنی چاہیے۔

''عَسْکَرٌ دَخَلَ أَرْضَ حَرْبٍ أَوْ حَاصَرَ حِصْنًا فِیہَا۔۔۔(أَوْ) حَاصَرَ (أَہْلُ الْبَغْیِ فِی دَارِنَا فِی غَیْرِ مِصْرٍ مَعَ نِیَّۃِ الْإِقَامَۃِ مُدَّتَہَا) لِلتَّرَدُّدِ بَیْنَ الْقَرَارِ وَالْفِرَارِ۔۔۔قال ابن عابدین ۔ رحمۃ اﷲ ۔وَالْإِطْلَاقُ شَامِلٌ لِمَا إذَا کَانَتْ الشَّوْکَۃُ لِعَسْکَرِنَا لِاحْتِمَالِ وُصُولِ الْمَدَدِ لِلْعَدُوِّ أَوْ وُجُودِ مَکِیدَۃٍ.''

''قال العلامۃ الحصکقی۔۔۔ بخلاف من دخلھا بأمان فَإِنَّہُ یُتِم لِأَنَّ أَہْلَ الْحَرْبِ لَا یَتَعَرَّضُونَ لَہُ لِأَجْلِ الْأَمَانِ.''(الدرالمختار مع رد المختار، کتاب الصلاۃ، ٢/١٢٧، سعید).فقط واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی