مدفون اشیاء کی تلاش اور اس کی ملکیت کا حکم

مدفون اشیاء کی تلاش اور اس کی ملکیت کا حکم

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام درج ذیل مسائل کے بارے میں کہ:
١۔ ہمارے علاقے میں آج کل لوگ جدید مشینریز کے ذریعے زمین میں قیمتی اشیاء وغیرہ تلاش کرتے ہیں، کیا یہ کام جائز ہے؟ اگر جائز ہے، تو اس کے نتیجے میں ملنے والی اشیاء پر زکوۃ یا خمس لازم ہے یا نہیں؟

  • اگر اس پر جاہلیت کے نشان وغیرہ ہو تو اس کا کیا حکم ہے؟
  • اگر اسلام کا نشان ہو ؟
  • اگر کوئی نشان بھی نہ ہو؟

٢۔ نیز کیا ارض مملوک میں ملنے والی اور ارض غیر مملوک میں ملنے والی اشیاء میں کوئی فرق ہے یا ایک حکم ہے؟شریعت مطہرہ کی روشنی میں وضاحت فرمائیں۔

جواب

١،٢….مشینوں کے ذریعہ زمین میں قیمتی اشیاء تلاش کرنا درست ہے، اس صورت میں ملنے والی اشیاء ، جیسے سونا چاندی اور ان سے بنی ہوئی اشیاء ، ان پر اگر اسلامی علامت ہے، تو یہ لقطہ کے حکم میں ہیں، اور اگر اس چیز پر دور جاہلیت کا یا کسی غیر مسلم کی ملکیت کا نشان ہے، تو اس میں خمس لازم ہے اور جس کو ملی اسی کی ملکیت ہوگی، یہ حکم ارض مملوکہ و غیر مملوکہ دونوں کا ہے، باقی اگر کوئی نشان نہ ہو تو ارض مملوکہ والی اشیاء پر خمس لازم ہے اور ملکیت جس کو ملی اسی کی ہوگی ،اور ارض غیر مملوکہ والی اشیاء لقطہ کے حکم میں ہے۔
لما في المبسوط السرخسي:
’’وإذا وجد الرجل الرکاز من الذھب والفضۃ والجواھر مما یعرف أنہ قدیم فاستخرجہ من أرض الفلاۃ ففیہ الخمس، وما بقي فھو لہ فھذا علی وجھین:إما أن یکون فیہ من علامات الإسلام.....فیکون بمنزلۃ اللقطۃ، فعلیہ أن یعرفھا، أو یکون فیہ شيء من علامات الشرک .... فحینئذ فیہ الخمس ۔۔۔۔۔۔ فإن لم یکن بہ علامۃ یستدل بھا فھو لقطۃ في زماننا........ وإن وجدہ في دار رجل، فإن قال صاحب الدار: أنا وضعتہ، فالقول قولہ لأنہ في یدہ، وإن تصادقا علی أنہ رکاز ففیہ الخمس‘‘.(کتاب الزکاۃ، باب المعادن وغیرھا:284/1، بیت الأفکار)
وفي المحیط البرھاني:
’’الکنز: اسم لمال مدفون في الأرض دفنہ بنو آدم، وأما الکلام في الکنز، أن یجدہ في أرض غیر مملوکۃ بحق المغارۃ والجبال وما أشبھھا، فإن کان فیہ علامات الإسلام کالمصحف والدراھم المکتوبۃ فیھا الشھادۃ، وما أشبہ ذلک، فھو بمنزلۃ اللقطۃ یعرفھا حولا، وإن کان فیہ علامات الشرک نحو الصنم والصلیب وما أشبھھا، ففیہ الخمس، وأربعۃ الأخماس للواجد، وإن لم یکن فیہ علامات تدل علی شيئ، فھو لقطۃ في زماننا‘‘.(کتاب المعادن والرکاز والکنوز:2 /535-537، الغفاریۃ)
وفي الدر مع الرد:
’’(ولو)وجدت (دفین الجاھلیۃ)أ ي:کنزًا (خمس)لکونہ غنیمۃ.(وما علیہ سمۃ الإسلام من الکنوز) نقدًا أو غیرہ (وما علیہ سمۃ الکفر خمس) أي:سواء کان في أرضہ أو أرض غیرہ أو أرض مباحۃ‘‘.(کتاب الزکاۃ، باب الرکاز: 3/ 306،307، حقانیۃ).فقط.واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب.
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتویٰ نمبر:27-28/ 176