مدرس کو بغیر کسی وجہ کے معزول کرنے سے بقیہ دنوں کی تنخواہ کا حکم

مدرس کو بغیر کسی وجہ کے معزول کرنے سے بقیہ دنوں کی تنخواہ کا حکم

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ بندہ کسی مدرسے میں مدرس تھا، پوری محنت لگن اور اخلاص سے اپنی ڈیوٹی کررہا تھا، اسباق کے حوالے سے انتظامیہ،  مدیر ادارہ اور طلباء سب مطمئن تھے، کسی قسم کی کوئی شکایت نہیں تھی ،لیکن پھر ذاتی عناد کی بناء پر انتظامیہ نے تنگ اور پریشان کرنا شروع کردیا، شروع سال میں مدرسہ کے صدر نے کہا کہ آپ طلباء کے ساتھ بات چیت اور تعلق رکھیں ،تاکہ طلباء مانوس رہیں اور بھاگیں نہیں، میں نے اس وقت کہا بھی تھا کہ انتظامیہ ناراض ہوگی اور بدگمانی کرے گی، لیکن صدر نے کہا کچھ نہیں ہوتا، بس پھر انتظامیہ نے تنگ کرنا شروع کردیا آخر کار ایک دن مدرس نے جواب دے دیا، مگر صدر مدرسہ نے دو اساتذہ کو گھر بھیجا اور واپس بلالیا معاملہ کلیئر ہوگیا، اس کے بعد عید کی چھٹیاں ہوگئیں بعد از تعطیلات دودن اسباق بھی پڑھائے ،پھر ایک دن17 ذو الحجہ عصر کے بعد مدرسہ کے ناظم کی کال آگئی کہ ہماری طرف سے معذرت ہے ،ہم مزید ساتھ نہیں چل سکتے، جواب صرف ذاتی عناد اور بدگمانی کی وجہ سے دیا گیا ہے، ورنہ مدرسہ والوں کے پاس نہ تو کوئی شرعی عذر ہے اور نہ ہی میرے خلاف کوئی ثبوت۔
اب ایسے وقت میں جواب دینا کہ کسی اور مدرسے میں جگہ نہیں بن سکتی ،جب کہ شروع سال میں مجھے کہا گیا تھا کہ آپ کسی اور جگہ نہ جائیں، ہم آپ کو یہیں رکھیں گے تو مفتی صاحب !اب آپ بتائیں کہ بقیہ سال کی تنخواہ کا مطالبہ کرنا درست ہے یا نہیں؟
وضاحت: کوئی تحریری معاہدہ نہیں ہوا تھا، پچھلے سال استعفیٰ دے چکا تھا، اس سال صدر مدرس نے رابطہ کیا کہ آپ آجائیں، میں نے کہا کہ میری کہیں اور بات ہوگئی ہے، لیکن جب انہوں نے اصرار کیا تو میں نے انتظامیہ کی بات سامنے رکھی کہ ایسا نہ ہو وہ سال کے درمیان میں مجھے تنگ کریں، صدر مدرس کی یقین دہانی پر میں دوبارہ وہاں گیا، یہی زبانی بات ہوئی تھی، نیز ہمارے ہاں ایک اور مدرسے میں ایک مدرس کے ساتھ اسباق کے ابتدائی دنوں (شوال میں) یہ واقعہ پیش آیا تھا تو اس مدرسے کے مدیر صاحب نے اسے پورے سال کی تنخواہ یک مشت دی تھی۔

جواب

واضح رہے کہ دینی مدراس کے مدرس کی حیثیت اجیر خاص کی ہے، اور وہ اجرت کا مستحق اس وقت ہوگا، جب وہ مدرسہ کے عمل کے لیے اپنے آپ کو مدرسہ کے حوالے کردے، اور مدرسہ کی طرف سے تفویض کردہ کام کرنے کی صلاحیت بھی ہو، لیکن اگر کسی وجہ سے اس میں یہ صلاحیت ختم ہوجائے، اور مدرسہ کی انتظامیہ اس کو نااہلیت کی وجہ سے مفوض کردہ کام سے معزول کردے ،تو وہ سال کے بقیہ دنوں کی تنخواہ کا حق دار نہ ہوگا، اور اگر مدرسہ کی انتظامیہ بلا ضرورت اور بغیر کسی مقول عذر کے اس کو قبل از وقت مقررہ معزول کردے ،تو وہ سال کے بقیہ دنوں یا مہینوں کی تنخواہ کا حق دار ہے۔
لہذا صورت مسئولہ میں بیان کردہ صورت حال اگر مبنی برحقیقت ہو، اور کوتاہی مدرسے والوں کی طرف سے ہو، یعنی مدرسے والوں نے مدرس کو بغیر کسی وجہ کے معزول کیا ہو، از خود اس نے استعفاء نہ دیا ہو، تو وہ بقیہ سال کی تنخواہ کا مستحق ہوگا، اور تنخواہ کا ضامن مدیر ادارہ ہوگا نہ کہ مدرسہ، اس لیے کہ مدرسین اجیر خاص ہیں، جن کا عقد اجارہ عمل کی بجائے وقت پر ہے، جس کی مدت مدارس دینیہ کے عرف میں ایک سال ہے، اور اگر کوتاہی مدرس کی طرف سے ہو اور وہ معقول اور ثابت بھی ہو، اور اسی کی بنیاد پر مدیر ادارہ نے مدرس کو درمیان سال برطرف کیا ہو، تو وہ بقیہ مدت کی تنخواہ کا مستحق نہیں۔
واضح رہے کہ یہ نفس سوال کا جواب ہے، باقی یہ کہ مذکورہ صورت میں زیادتی مدیر ادارہ کی طرف سے ہے یا مدرس کی طرف سے، اس سلسلے میں فریقین کو چاہیے کہ کسی کو حکم مقرر کرکے ان کے سامنے اپنی بات تفصیل سے رکھیں، جو فیصلہ حکم کرے، اس پر فریقین عمل کریں۔
لما في الھندیۃ:
’’یصح العقد علی مدۃ معلومۃ، أي مدۃ کانت، قصرت المدۃ کالیوم ونحوہ، أو طالت کالسنین، ویعتبر ابتداء المدۃ مما سمي، وإن لم یسم شیأ، فھو من الوقت الذي استأجرھا‘‘.(کتاب الإجارۃ، الباب الثالث في الأوقات التي یقع علیھا الإجارۃ، ٤/ ٤٤٦: دار الفکر).
وفي الترمذي:
’’أن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قال:˒˒ الصلح جائز بین المسلمین إلا صلحا حرم حلالا أو أحل حراما، والمسلمون علی شروطہم إلا شرطا حرم حلالا أو أحل حراما˓˓‘‘.(کتاب الأحکام عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، باب ما ذکر عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم في الصلح بین الناس، ٢/ ٣٤٣: دار الکتب العلمیۃ).فقط.واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب.
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتویٰ نمبر:174/141