مدرسے والوں كا چرم قربانى كى جگہ رقم لینا

مدرسے والوں كا چرم قربانى كى جگہ رقم لینا

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ بلوچستان ضلع واشک کی طرف کچھ مدارس ہیں۔ ان مدرسوں کی کوئی خاص آمدنی نہیں ہے۔ بس قربانی کے جانوروں کی کھالیں اور زمینداروں سے عشر ، چندہ وغیرہ  سے چلتے ہیں۔ جیسے کہ عید الاضحیٰ پر گزشتہ چند سالوں سے کھالوں کی قیمت بہت کم ہے۔ اور اس سال بھی ایسا ہی تھا۔

 اب مسئلہ یہ ہے کہ عید الاضحیٰ کے موقع پر کچھ مدارس والے تو کھالیں جمع کرتے ہیں اور کچھ مدرسے والے باقاعدہ عید کی نماز میں اعلان کرتے ہیں کہ اس سال کھالوں کی قیمت بہت کم ہے، لہذا جو لوگ ہمارے مدرسہ میں کھال دیں گے تو وہ کھال کہ جگہ ہمیں اتنے پیسے دےدیں، مثلا  :سوروپے، تو آیا کھال کی جگہ یہ پیسے لینا جائز ہے یا نہیں؟ صحیح جواب سے مطمئن فرما دیجئے۔

جواب

صورت مسئولہ میں اگر لوگ خوشی سے مدرسے میں کھال کی قیمت کے علاوہ پیسے دینا چاہیں، تو یہ ان کی طرف سے صدقہ اور تبرع ہوگا، اور مدرسے کے لئے ان پیسوں کا لینا جائز ہے، البتہ قربانی کی کھال کو بیچ کر اس کی قیمت کو الگ سے صدقہ کرنا ضروری ہے، اگر قربانی کی کھال کو بیچ کر اس کی قیمت بھی مدرسے میں دینا چاہیں، تو یہ بھی جائز بلکہ بہتر ہے۔

لما في التنوير مع الدر:
’’(والصدقة كالهبة) بجامع التبرع، ..... لأن المقصود فيها الثواب لا العوض‘‘. (كتاب الهبة، فصل في مسائل المتفرقة: 205/3، رشيدية).
وفي مشكاة المصابیح:
”قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ألا لا تظلموا، الا لا يحل مال إمرئ إلا بطيب نفس منه“.(كتاب البيوع، باب الغصب والداريه، الفصل الثاني:544/1، دار الكتب العلمية).
وفي التنوير:
’’(فإن بيع اللحم أو الجلد به) أي بمستهلك (أو بدارهم تصدق بثمنه)‘‘.(كتاب الاضحية:543/9، رشيدية).
وفي التاتار خانية:
وكذلك لا يشترى به اللحم، ولا بأس ببيعة بالدارهم ليتصدق بها، وليس له أن يبيعها بالدارهم لينفقه على نفسه، وفي الخانية: أو عياله، م: ولو فعل ذلك تصدق بثمنها“. (كتاب الاضحية، الفصل: الانتفاع بالاضحية:440/17، فاروقية).
( وكذا في الهندية:كتاب الاضحية، الباب السادس، في بيان ما يستحب في الاضحية والاتنفاع بها:347/5، دار الفكر).فقط.واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب.

فتویٰ نمبر:331/ 162

دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی