محفل حسن قراءت منعقد کروانا اوراس میں مدرسے کا فنڈ استعمال کرنا

محفل حسن قراءت منعقد کروانا اوراس میں مدرسے کا فنڈ استعمال کرنا

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ہمارے ملک پاکستان میں ایک عرصہ سے یہ رواج چلا آ رہا ہے کہ کچھ لوگ بیرون ملک سے قراء حضرات  کومحفل حسن قرأت کے لیے بلاتے ہیں، ان قراء حضرات سے پیسوں کا معاملہ (Dealing) کرنے کے بعد یہ ایجنٹ حضرات پاکستان کے مختلف اضلاع میں یہاں (پاکستان )سے قراء حضرات سے محفل حسن قرأت کا معاملہ (Dealing) کرتے ہیں۔
تقریباً ایک ایک محفل کاایک لاکھ روپیہ یا اس سے زیادہ لیتے ہیں، واضح رہے کہ بیرون ملک کے قراء حضرات داڑھی منڈے ہوتے ہیں، یہ بھی واضح رہے یہاں کے قراء حضرات یہ رقم مدرسے کے فنڈ سے لیتے ہیں، یا طلباء کو مختلف مساجد میں بھیج کر چندہ کرتے ہیں۔
اب اس کے متعلق میرے کچھ سوالات ہیں جو کہ ذیل میں مذکور ہیں،ازراہِ کرم ان سوالات کےنمبر وار جوابات دے کر مشکور فرمائیں:
 ١…ان قراء حضرات کے لیے تلاوت پر اجرت لینا کیسا ہے؟
۲…داڑھی منڈے قراء حضرات کو بلانا شرعا کیسا ہے؟
٣…ایسی محفل حسن قراء ت کے لیے مدرسے کے فنڈ سے یا طلباء کو مساجد میں بھیج کر چندہ کروانا یا چندہ دینا کیسا ہے؟
٤… ایسی محفل حسن قراء ت میں علماءِ کرام یا عوام الناس کا شریک ہونا کیسا ہے؟
مذکورہ سوالات کے تحقیقی جوابات عنایت فرمائیں۔

جواب

١… واضح رہے کہ لوگوں میں حفظ قرآن اور تجوید کا شوق پیدا کرنے کے لیے اور قرآن مجید کی عملی تبلیغ کے لیے محفل حسنِ قراء ت منعقد کرنا جائز، بلکہ باعث اجر وثواب ہے، البتہ مروجہ محافل حسنِ قراء ت میں چوں کہ بہت سے مفاسد پائے جاتے ہیں۔مثلا:٭تصویر سازی٭اسراف اور فضول خرچی ٭لاؤڈ اسپیکر کی آواز کو اتنا بلند کیا جاتا ہے،جس سے لوگوں کے نظام زندگی میں خلل واقع ہوتا ہے اور بیماروں کو تکلیف ہوتی ہے، بچوں اور بوڑھوں کے آرام میں خلل واقع ہوتا ہے٭بسا اوقات پوری پوری رات محفل لگتی ہے، جس کی وجہ سے صبح کی نماز ضائع ہونے کا خطرہ ہوتا ہے٭بعض جگہوں میں مردوں اور عورتوں کا اختلاط ہوتا ہے ٭مسجد میں محفل منعقد ہونے کی صورت میں مسجد کے آداب کی رعایت نہیں رکھی جاتی، لہٰذا مذکورہ منکرات سے بچتے ہوئے محافل حسنِ قراء ت منعقد کرنا جائز ہے، البتہ جہاں یہ مفاسد پائے جائیں، وہاں ان محفلوں سے اجتناب کیا جائے۔
یہ بات بھی ملحوظ رہے کہ اصل کے اعتبار سے نیکی کے کاموں پر اجرت لینا درست نہیں، البتہ چند چیزوں میں فقہائے کرام نے ضرورت کی بناء پر اجازت دی ہے اور یہ مسئلہ بھی ان مسائل میں سے نہیں ہے، جن میں فقہائے کرام نے حیلہ کرنے کی اجازت دی ہے اور نہ اس میں سخت ضرورت ہے، لہٰذا قراء کرام کا صرف قراء ت پر اجرت لینا جائز نہیں، البتہ ان قاریوں کو آنے جانے اور خورد ونوش کے اخراجات ادا کیے جاسکتے ہیں، اسی طرح اگر کوئی شخص اپنی طرف سے انہیں کوئی ہدیہ پیش کرے، تو اس کے لیے دینے میں کوئی حرج نہیں۔
٢… چوں کہ داڑھی منڈانا حرام ہے، اس لیے اگر داڑھی منڈے قراء حضرات تلاوت کریں گے، تو پھر مذکورہ محافل سے ایک غلط پیغام آگے جائے گا اور خلاف سنت کام کرنے والوں کی قدر ومنزلت سے عوام کے ذہنوں میں بھی مختلف قسم کے شکوک وشبہات پیدا ہوں گے، لہٰذا بہتر یہ ہے کہ اس کا متبادل ایسا طریقہ اختیار کیا جائے جو شرعی مفاسد سے پاک ہو، مثلا: مسجد کے امام وخطیب یا مؤذن اچھے قاری ہوں یا اس علاقے میں کوئی اچھا قاری ہو، جس کی داڑھی بھی شریعت کے موافق ہو، تو ان سے بغیر کسی تشہیر کے کبھی کبھار قرآن پڑھوا لیا کریں۔
٣… اگر مدرسہ کے ساتھ تعاون کرنے والوں نے مصرف متعین کردیا ہو، تب تو ایسی محفلوں میں مدرسہ کے فنڈ کو خرچ کرنا نا جائز ہے، البتہ اگر مدرسہ کے مہتمم کو اختیار دیا ہو، تو پھر مذکورہ مفاسد سے پاک محفلوں میں فنڈ لگانے کی گنجائش ہے، ورنہ ایسی محفلوں میں مدرسہ کے فنڈ کو خرچ کرنا نا جائز ہے اور ایسی محفلوں کے لیے طلباء کو مساجد میں بھیج کر چندہ کروانا اور ان طلباء کو چندہ دینا نا جائز ہے۔
٤… مذکورہ محافل میں شرکت کرنے سے اگر قرآن کریم کا سننا، سنانا مقصود ہو اور غیر شرعی امور کا ارتکاب بھی نہ ہو، تو پھر ایسی محفلوں میں شرکت باعث اجر و ثواب ہے، لیکن اگر مقصود ریا کاری ہو اور قاری ے ذہن میں یہ ہو کہ قراء ت کے بعد بھاری معاوضہ وصول کریں گے، اس کے علاوہ دیگر غیر شرعی امور کا ارتکاب بھی ہو، مثلا:تصویر سازی وغیرہ، تو علماء کرام اور عوام الناس ہر ایک کے لیے ایسی مجالس سے احتراز کرنا ضروری ہے۔
لما في الصحیح البخاري:
’’حدثنا صدقۃ ..... عن عبد اللہ قال:قال لي رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: إقرأ علي، قلت:أقرأ علیک وعلیک أنزل؟ قال: فإني أحب أن أسمعہ من غیري‘‘.(کتاب التفسیر، رقم الحدیث: 4583، ص: 783، دار السلام)
وفي حاشیۃ ابن عابدین:
’’قال تاج الشریعۃ في شرح الھدایۃ: إن القرآن بالأجرۃ لا یستحق الثواب لا للمیت ولا للقاري، وقال العیني في شرح الھدایۃ: ویمنع القاري للدنیا والآخذ والمعطي آثمان‘‘.
وفیہ أیضًا:
’’قال خیر الدین الرملي:أقول:المفتي بہ جواز الأخذ استحسانًا علی تعلیم القرآن لا علی القراء ۃ المجردۃ کما صرح بہ في التاتارخانیۃ‘‘.(کتاب الإجارۃ: 95/9، مکتبۃ رشیدیۃ)
وفیہ أیضًا:
’’والحاصل:أن ما شاع في زماننا من قراء ۃ الأجزاء بالأجرۃ لا یجوز؛ لأن فیہ الأمر بالقراء ۃ وإعطاء الثواب للآمر والقراءۃ لأجل المال، فإذا لم یکن للقاري ثواب لعدم النیۃ الصحیحۃ فأین یصل الثواب إلی المستأجر، ولو لا الأجرۃ ما قرأ أحد لأحد في ھذا الزمان، بل جمعوا القرآن العظیم مکسبا ووسیلۃ إلی جمع الدنیا ـ إنا للہ وإنا إلیہ راجعون .اھـ. (کتاب الإجارۃ: 95/9، مکتبۃ رشیدیۃ)
وفي سنن الکبری للبیہقي:
’’أخبرنا أبو بکر بن الحارث الفقیہ.........عن أبي حرۃ الرقاشي، عن عمہ أن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قال:لا یحل مال امرئ مسلم إلا بطیب نفس منہ‘‘.(کتاب الغصب: 166/6، دار الکتب العلمیۃ).فقط.واللہ تعالیٰ أعلم بالصواب.
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتویٰ نمبر:175-178/ 176