مایوں اور مہندی کی رسم کا حکم

مایوں اور مہندی کی رسم کا حکم

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام مندرجہ ذیل  مسئلہ کے بارے میں کہ ۱۔ہمارے یہاں جب کسی لڑکی کی شادی ہوتی ہے تو اس لڑکی کو شادی سے تقریباً ایک ہفتے پہلے کمرے میں بٹھادیتے ہیں اور اس کو کوئی کام کرنے نہیں دیتے اور بغیر کسی ضروری کام کے کمرے سے باہر بھی نہیں نکلنے دیتے، اگر کوئی خاندان یہ رسم ادا نہ کرے تو اس پر طنز کیا جاتا ہے ،کیا شریعت میں اس کی اجازت ہے ؟

۲۔جب شادی شروع ہوتی ہے تو رات کو دلہا والے دلہن کو مہندی لگانے کے لیے آتے ہیں، اس دوران نوجوان لڑکیاں بلند آواز سے گانا گاتی ہیں ، اور”دف” ساتھ لے کر آتی ہیں اور اسے زور زور سے بجایا جاتا ہے جس پرنوجوان لڑکیاں رقص کرتی ہیں، کیالڑکیوں کا اس طرح بلند آواز سے گانا گانااور رقص کرنا جائزہے ؟

۳۔جب شادی ہوتی ہے تو تمام رشتہ دار جن میں محرم اور غیر محرم مرد بھی شامل ہوتے ہیں ،دلہا اوردلہن کو مہندی لگاتے ہیں اور ایک عورت موجود ہوتی ہے، جو مہندی لگانے والوں سے پیسے وصول کرتی ہے، کیا اس طرح مہندی لگانا اور پیسے وصول کرنا جائز ہے؟

جواب

۱،۲۔سوال میں مذکور خواہ مہندی کی رسم ہو یا کوئی اور ان رسومات کو ترک کرنا ضروری ہے، اس لیے کہ ان میں سے ہر رسم بہت سے محرمات کا مجموعہ ہے،ان رسومات کو کرنے والے گناہ گار ہیں، اس لیے ان کو اس برے فعل سے توبہ کرنا ضروری ہے،اگر پہلے سے یہ معلوم ہو کہ اس شادی میں یہ رسومات ہو رہی ہیں، تو اس میں جانا جائز نہیں، اگر جانے کے بعد معلوم ہو تو پھر اگر اسی مجلس میں جس میں یہ شریک ہو ا، یہ رسومات ہو رہی ہوں تو اس میں شریک ہونا جائز نہیں، اگر اس مجلس میں شریک ہوگیا  ہواورروکنے پر قادر ہو تو روکے ورنہ صبر کرے،یہ حکم عام آدمی کے لیے ہے، عالم، مقتدا ء اور صالح شخص کے لیے شرکت بہرحال حرام ہے۔

۳۔آج کل جو مہندی کی رسم ہے، جس میں محرم اور نامحرم اکٹھے ہوتے ہیں ،دلہا اور دلہن کو مہندی لگاتے ہیں اور مہندی لگانے والوں سے پیسے وصول کرتے ہیں،ان سب کی شریعت میں کوئی اصل نہیں، بلکہ اس میں گناہ کے بہت سے کام بھی ہوتے ہیں ؛لہٰذا ان سے اجتناب ضروری ہے،البتہ عورتیں اپنے طور سے بغیر کسی اجتماعی اہتمام کے مہندی لگاسکتی ہیں۔

''قال:( ومن دعی إلی ولیمۃ أو طعام فوجد ثمہ لعباً أو غناء فلا بأس بأن یقعد ویأکل)۔۔۔۔ فإن قدر علی المنع منعھم وإن لم یقدر یصبر،وھذا إذا لم یکن مقتدی،فإن کان،لم یقدرعلی منعھم یخرج ولایقعد؛ لأن فی ذلک شئین الدین وفتح باب المعصیۃ علی المسلمین۔۔ولوکان ذلک علی المائدۃ لا ینبغی أن یقعد وإن لم یکن مقتدی، لقولہ تعالیٰ: ''فلا تقعد بعد الذکریٰ مع القوم الظالمین.'' وھذا لم یلزمہ حق الدعوۃ۔۔۔ودلت المسألۃ علی أن الملاھی کلھا حرام ، حتی التغنی بضرب القضب.'' (الھدایۃ، کتاب الکراھیۃ٤/٤٥٣،مکتبہ امدادیہ ملتان)

''عَنْ حَمْزَۃَ بْنِ أَبِی أُسَیْدٍ الْأَنْصَارِیِّ عَنْ أَبِیہِ أَنَّہُ سَمِعَ رَسُولَ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُولُ وَہُوَ خَارِجٌ مِنْ الْمَسْجِدِ فَاخْتَلَطَ الرِّجَالُ مَعَ النِّسَاء ِ فِی الطَّرِیقِ فَقَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لِلنِّسَاء ِ اسْتَأْخِرْنَ فَإِنَّہُ لَیْسَ لَکُنَّ أَنْ تَحْقُقْنَ الطَّرِیقَ عَلَیْکُنَّ بِحَافَّاتِ الطَّرِیقِ.'' (سنن ابی داود، ٢/٣٦٨، کتاب الأدب، مدادایہ، ملتان).فقط واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی