مالِ تجارت میں زکوٰۃ کی ادائیگی کا طریقہ

Darul Ifta

مالِ تجارت میں زکوٰۃ کی ادائیگی کا طریقہ

سوال

کیافرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ راقم الحروف کا ایک میڈیکل اسٹور ہے جس میں تقریباً دو لاکھ روپے کی مالیت کی ادویات موجود ہیں، بندہ اس کی زکوٰۃ نکالنا چاہتا ہے، لیکن مکمل طورپر ان ادویات کے اعداد وشمار انتہائی مشکل ہیں،مثلاً مختلف اقسام کے ٹیبلیٹ کم وزیادہ مقدار میں موجود ہیں، اب ان سب کا حساب لگانا میرے بس کی بات نہیں، لہٰذا اس بات کی وضاحت فرمائیں کہ میں زکوٰۃ کس طریقہ سے ادا کروں؟ کیا ایک محتاط اندازہ لگا کر زکوٰۃ نکالی جاسکتی ہے یا نہیں؟

جواب

حساب کرنا تو زکوٰۃ کے لیے ضروری ہے، لیکن اگر تمام ادویہ کا حساب کرنا یا قیمت لگانا دشوار ہو تو محتاط اندازہ لگا کر زکوٰۃ اداکی جاسکتی ہے۔
الزکاۃ واجبۃ في عروض التجارۃ کائنۃ ما کانت إذا بلغت قیمتہا نصابا من الورق أو الذہب.(الھدایۃ،کتاب الزکاۃ،فصل في العروض: ١/١٩٥، شرکۃ علمیۃ)
وفي الشامیۃ: ویقوم في البلد الذي المال فیہ. (رد المحتار، کتاب الزکاۃ، باب زکاۃ المال: ٢/٢٩٩، سعید).فقط واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی

footer