لاپتہ شوہر کی بیوی دوسری جگہ نکاح کب کرسکتی ہے؟

لاپتہ شوہر کی بیوی دوسری جگہ نکاح کب کرسکتی ہے؟

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ایک لڑکی کا نکاح ہوا، سات ماہ بعد اس کا شوہر لاپتہ ہوگیا۔  لاپتہ ہونے کے بعد شوہر کے بھائی نے (جو کہ بوقت نکاح لڑکے کی طرف سے وکیل بھی تھا) اس نے حق مہر کے پیسوں کے ساتھ لڑکی کو اس کے گھر والوں کے سپرد کردیا اور یہ کہا کہ جس طرح (میری وکالت میں) مجھے سپرد کیا تھا، میں تمہیں واپس کررہا ہوں، کیوں کہ میرا بھائی لاپتہ ہے، اب تم لوگ طلاق نامہ بناؤ یا جو مرضی کرو۔
اب اس واقعہ کو 8سال گزر گئے، لڑکی دوسری جگہ نکاح کرسکتی ہے؟ جبکہ لڑکا ابھی تک غائب ہے۔

جواب

فقہ حنفی کے اصل مذہب میں لاپتہ شوہر کی بیوی اس وقت تک کہیں اور شادی نہیں کرے گی، جب تک اس کے شوہر کے ہم عمر لوگوں کو موت نہ آجائے، مگر ہمارے زمانے کے سوالات کو مد نظر رکھتے ہوئے جمہور علمائے کرام نے فقہ مالکی کے مذہب پر فتوی دیا ہے، جس کا حاصل یہ ہے کہ عدالت یا مسلمانوں کی ایک جماعت کے سامنے یہ مسئلہ پیش کیا جائے اور شوہر کا لاپتہ ہونا ثابت کیا جائے، پھر فیصلہ کرنے والا تفتیش کروائے، مایوسی ہوجانے پر عورت کو مزید چار سال انتظار کرنے کا کہے، پھر اگر ان چار سال کے اندر بھی لاپتہ شوہر کا پتہ نہ چلا، تو شوہر کو مردہ تصور کیا جائے گا، اور عورت چار ماہ دس دن عدت وفات گزارے، پھر اس کو دوسری جگہ نکاح کا اختیار ہوگا۔
اگر یہ صورت ممکن نہ ہو، یعنی عورت کا زنا میں پڑنے کا شدید اندیشہ ہو، تو عورت کو ایک سال انتظار کرنے کا کہے، اس کی بھی گنجائش ہے، یاد رہے کہ معاملہ اللہ تعالی کے ساتھ ہے، بہانہ تلاش نہ کیا جائے۔
لما في الدر مع الرد:
’’(فلا ينكح عرسة [المفقود] غيره... ولا يفرق بينه وبينها ولو بعد مضي أربع سنين خلافا لمالك، فإن عنده تعتد زوجة المفقود عدة الوفاة بعد مضي أربع سنين... قال في البزازية: الفتوى في زماننا على قول مالك (ولا يستحق ما أوصى له إذا مات الموصي، بل يوقف قسطه إلى موت أقرانه) هو حكمه في جميع أحكامه من قسمة ميراثه وبينونة زوجته‘‘.(كتاب المفقود: 6/ 448،452، رشيدية)
(حيله ناجزه: 62-70، دار الاشاعت).فقط.واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب.
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتویٰ نمبر:177/15