كیا گھر کے سربراہ کی طرف سے سب کے لیے قربانی کافی ہوگی؟

 كیا گھر کے سربراہ کی طرف سے سب کے لیے قربانی کافی ہوگی

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام درج ذیل  مسئلہ کے بارے میں کہ:

خالد گھر کا سربراہ ہے اور ان کے بیٹے تاجر ہیں اور صاحب نصاب ہیں ، ان میں سے ہر ایک اپنی کمائی میں خود مختار بھی ہے، یعنی تجارت اور گھر والوں پر والد صاحب کی اجازت کے بغیر خرچ بھی کرسکتے ہیں، لیکن کمائی والد صاحب کے پاس جمع ہوتی ہے، اور بیٹے شادی شدہ بھی ہیں اور ان کی بیویاں بھی صاحب نصاب ہیں اس طور پر کہ ان کے زیورات کی مالیت نصاب کو پہنچتی ہے، لیکن انہوں نے یہ زیورات شوہر یا سسر کو بطور مضاربت یا ملکیت کے دے دیے ہیں۔

اب پوچھنا یہ ہے کہ آیا قربانی صرف خالد کی طرف سے ان سب کے لیے  کافی ہوگی یا ان میں سے ہر ایک پرقربانی واجب ہوگی؟

جواب

صورت مسئولہ میں اگر ایک گھر میں متعدد افراد ہیں اور سب صاحب نصاب ہیں، تو اس صورت میں خالد کی طرف سے قربانی تمام افراد کے لیے کافی نہیں ہوگی، بلکہ ہر فرد کے لیے الگ الگ ایک حصہ قربانی کرنا لازم ہوگا، چاہے ہر ایک چھوٹا جانور لے لے یا ایک بڑے جانور میں سات افراد شامل ہوجائیں۔

نیز جن عورتوں نے جو سونا اپنےشوہروں یا سسروں کو بطور مضاربت کے دیا ہے، تو اس صورت میں بھی ان پر قربانی واجب ہوگی، البتہ اگر عورتیں اپنا سونا بطور ملکیت کے دے دیں اور ان کے پاس اس کے علاوہ کوئی ایسی چیز موجود نہ ہو جو نصاب کو پہنچتی ہو، تو اس صورت میں عورتوں پر قربانی واجب نہیں ہوگی۔

لما في التنوير مع الدر:
’’(فتجب) التضحية:(على حر مسلم مقيم موسر عن نفسه لا عن طفله) على الظاهر، بخلاف الفطرة‘‘.(كتاب الاضحية: ۹/ ۵۲۱-۵۲۴: رشيدية).
وفي الهندية:
’’وليس على الرجل أن يضحي عن أولاده الكبار وامرأته إلا بإذنه‘‘.(كتاب الأضحية: الباب الأول: ۳۳۸/۵: دار الفكر بيروت).
وفيه أيضا:
’’ولو ضحى ببدنة عن نفسه وعرسه وأولاده.... إن كان صغارا جاز عنه وعنهم جميعا.... ومن كانوا كبارا إن فعل بأمرهم جاز عن الكل.... وإن فعل بغير أمرهم أو بغير أمر بعضهم لا تجوز عنه ولا عنهم في قولهم جميعا لأن نصيب من لم يأمر صار لحما فصار الكل لحما‘‘. (كتاب الأضحية، الباب السابع: ۳۴۸/۵: دار الفكر بيروت)
 وفي الهداية:
’’قال: الاضحية واجبة على كل حر مسلم مقلم موسر في يوم الأضحى عن نفسه‘‘. (كتاب الأضحية: ۱۵۴/۷،البشرى)
وفي العالمكيرية:
’’يجب أن يعلم أن الشاة لا تجزئ إلا عن واحد وإن كانت عظيمة والبقر والبعير يجزي عن سبعة إذا كانوا يريدون به وجه الله تعالى‘‘.(كتاب الأضحية، الباب الثامن فيما يتعلق بالشركة في الضحايا: ۳۵۷/۵: دار الفكر بيروت).فقط.واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب.

فتویٰ نمبر: 192/ 173

دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی