كرایہ والا مکان اور زرعی زمین کی صورت میں قربانی کا حکم

كرایہ والا مکان اور زرعی زمین کی صورت میں قربانی کا حکم

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ میری والدہ کے نام پر 2 مکانات ہیں جو ان کے والد نے انہیں دیے تھے، ان کے نام پر تقریبًا 12 کنال زمین ہے، لیکن یہاں ایک بات قابل ذکر ہے کہ اس(زمین) کی کوئی باقاعدہ یا ماہانہ آمدنی نہیں ہے۔ میرا سوال ہے کہ کیا ان پر قربانی فرض ہے؟ اس کا اسلامی حکم کیا ہے؟ میرا مطلب ہے کہ ان کی کوئی باقاعدہ آمدنی نہیں ہے لیکن زمین ہے۔ان کے طبی اخراجات سمیت ان کی تمام ضروریات ہم بیٹے پوری کرتے ہیں۔ ان کے والد (میرے نانا) کی سرکاری پنشن کچھ مسائل کی وجہ سے رک گئی ہے اور ابھی شروع نہیں ہوئی۔
وضاحت:٭دو مکانات ہیں، جس میں سے ایک میں وہ خود رہتی ہیں اور دوسرا کرائے پر دیا ہوا ہے۔
٭ بارہ کنال زمین زرعی اورآباد ہے اور محصول پر دی ہوئی ہے۔

جواب

صورت مسئولہ میں جس مکان کو کرایہ پر دیا گیا ہے اس کا کرایہ، اور اسی طرح زمین کی آمدنی اگر ضرورت میں استعمال ہورہے ہوں، تب تو قربانی واجب نہیں۔
ہاں!البتہ سب ضرورت سے زائد یا کچھ زائد ہو، جس کی قیمت ساڑھے باون تولہ چاندی کے قیمت کے بقدر ہو، تب آپ کی والدہ پر قربانی واجب ہوگی۔
لما في الرد:
”ولو له عقار يستغله، فقيل تلزم لو قيمته نصابا وقيل له يدخل منه قوت سنة تلزم وقيل قوت شهر فمتى فضل نصاب تلزمه“. (كتاب الاضحية، 520/6:رشيدية).
وفي البدائع:
”ومنها الغنى لما روي عن رسول الله صلى الله عليه وسلم أنه قال من وجد سعة فليضح شرط عليه الصلاة والسلام السعة وهي الغنى... فلا بد من اعتبار الغني، وهو أن يكون في ملكه مائتا درهم أو عشرون دينارا أو شيء تبلغ قيمته ذلك سوى مسكنه وما يتأثث به وكسوته وخادمه وفرسه وسلاحه“. (كتاب الاضحية، فصل في شرائط الوجوب، 283/6: رشيدية).
وفي الهندية:
”والموسر في ظاهر الرواية من له مائتا درهم أو عشرون دينارا أو شيء يبلغ ذلك سوى مسكنه ومتاع مسكنه ومركوبه وخادمه في حاجته التي لا يستغني عنها“. (كتاب الاضحية، الباب الاول: في .... شرائطها، 337/5:دار الفكر) .فقط.واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب.

فتویٰ نمبر:323/ 170

دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی