قصداً یا غلطی سے بیوی کا دودھ پینے اوراس سے لواطت کرنے کا حکم

قصداً یا غلطی سے بیوی کا دودھ پینے اوراس سے لواطت کرنے کا حکم

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام مندرجہ ذیل  مسئلہ کے بارے میں کہ اگر کسی شخص نے اپنی بیوی کا دودھ غلطی سے یا قصداً پی لیا اور اسی طرح اگر اپنی بیوی کے دبر میں ذکر داخل کردیا خطاء ًا یا قصداً تو ان دونوں مسئلوں میں خطاءً اور قصداً کا حکم علیحدہ علیحدہ احادیث، قرآن اور اجماعِ سنت سے جس طرح کی بھی وضاحت اور تشریح آپ کے لیے ممکن ہو برائے مہربانی بیان فرما دیجیے اور حلت اور حرمت کے علاوہ نکاح بھی کس صورت میں ٹوٹتا ہے کہ نہیں وضاحت فرما دیجیے۔

جواب

واضح رہے کہ بیوی کا دودھ پی لینا اور لواطت کرنا ایک نہایت برا فعل ہے، جو ک شریعت میں نا جائز اور حرام ہے، لہٰذا جس شخص نے اس کا ارتکاب کیا ہے، تو اسے خوب توبہ استغفار کرنا چاہیے اور آئندہ کے لیے عزم مصمم کر کے اجتناب کرنا چاہیے، اگر کسی نے غلطی سے بیوی کا دددھ پی لیا یا لواطت کرلی اور اسے بعد میں معلوم ہوا کہ یہ غلطی ہوئی ہے، تو امید ہے کہ اللہ تعالی مواخذہ نہیں فرمائیں گے، لیکن اگر مسئلہ کی لا علمی کی وجہ سے ایسا کیا تو گناہ ہوگا، توبہ واستغفار بہر حال کرنا چاہیے، تاہم اس سے کسی بھی صورت میں نکاح نہیں ٹوٹا۔

لما في التنوير مع الدر:

(ولم يبح الإرضاع بعد مدته) لأنه جزء آدمي والانتفاع به لغير ضرورة حرام على الصحيح، شرح الوهبانية. (كتاب النكاح، باب الرضاع: 4/389، رشيدية)

وفي التنوير مع الدر:

(أو) بوطء (دبر) وقالا، إن فعل في الأجانب حد،وإن في عبده، أو أمته،أو زوجته فلا حدّ إجماعًا بل يعزّر،قال في الدرر بنحو الإحراق بالنار وهدم الجدار والتنكيس من محل مرتفع بإتباع الأحجار. وفي الحاوي: والجلد أصح. وفي الفتح: يعزر ويسجن حتى يموت أو يتوب. ولو أعتاد اللواطة قتله الإمام سياسة. (كتاب الحدود، مطلب: في وطئ الدبر، وفي حكم اللواطة: 9/43، 44، رشيدية).فقط واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی

فتویٰ نمبر : 154/106،109