قربانی کے لیے وکیل بنانے کا حکم

قربانی کے لیے وکیل بنانے کا حکم

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ زىد كو اىك شخص نے قربانى كے لىے ٢٠ ہزار روپےدئیے کہ اس سے اپنے لئے ایک بکرا لے لو یا کسی کیساتھ بڑے جانور میں حصہ ڈالو۔ اب اس میں دو صورتیں ہیں:
٭اگر ایک چھوٹا جانور یا حصہ بیس ہزار سے کم میں ملا تو باقی رقم مالک کو لوٹانا ضروری ہے یا نہیں؟
٭ اگر چھوٹا جانور یا بڑے جانور میں حصہ بیس ہزار سے زیادہ میں ملا، تو باقی پیسے زید اپنی جیب سے ڈال سکتا ہے یا نہیں؟ اور ان پیسوں سے اس شخص کی قربانی پر کوئی اثر تو نہیں پڑے گا؟ شریعت کی روشنی میں راہنمائی فرمائیں۔
وضاحت:زید کو جس شخص نے رقم دی ہے اس پر قربانی واجب ہے، وہ اپنی طرف سے قربانی کے لے زید کو رقم دیتا ہے، تا کہ اس کی قربانی ادا ہوجائے اور زید کو گوشت مل جائے۔

جواب

صورت مسئولہ میں زید نے مذکورہ شخص کی طرف سے دی ہوئی رقم (-/20000) سے کم میں قربانی کی، تو بقیہ رقم مذکورہ شخص کو لوٹا دے، اور اگر زید نے مذکورہ شخص کی اجازت سے (اجازت خواہ صراحتا ہو یا دلالتًا) اضافی رقم قربانی کرنے میں لگا دی، توبھی قربانی درست ہوگی۔

لما في التاتارخانية:
”في الواقعات:رجل دفع عشرين درهما إلى رجل ليشترى له بها أضحية، فاشترى بخمسة وعشرين لا يلزمه، وإن اشترى بتسعة عشر فهذا على وجهين: إما أن يكون ثمنه، أو اقل ففي الوجه الأول يلزم الآمر، وفي الوجه الثاني لا يلزم“.  (كتاب الأضحية: الفصل التاسع في المتفرقات: 17/461:فاروقيه)
وفي بدائع الصنائع:
”ومنها: أنه تجزئ فيها النيابة فيجوز للإنسان أن يضحي بنفسه، وبغيره بإذنه، لأنها قربة تتعلق بالمال، فتجزئ فيها النيابة كاداء الزكاة وصدقة الفطر، ولأن كل أحد لا يقدر على مباشرة الذبح بنفسه خصوصا النساء، فلو لم تجز الاستنابة لأدى إلى الحرج، وسواء كان المأذون مسلمًا أو كتابيًا، حتى لو أمر مسلم كتابيًا ان يذبح أضحية يجزيه، ...... وسواء كان الاذن نصا أو دلالة، حتى لو اشترى شاة للأصحية في يوم النحر فأضجعها وشد قوائمها فجاء انسان وذبحها من غير أمره اجزاء استحسانًا‘‘.(كتاب التضحيه: فصل في كيفيه الوجوب: 6/291:بيروت).فقط.واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب.

فتویٰ نمبر:324/ 170

دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی