قربانى کے لیے قصائی کو وکیل بنانے کی ایک صورت

قربانى کے لیے قصائی کو وکیل بنانے کی ایک صورت

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام درج ذیل  مسئلہ کے بارے میں کہ:

بعض ممالک مىں ہمارے ملک کی طرح گھروں میں عام قربانی کرنے کی اجازت نہیں ہوتی، بلکہ قربانی کے لیے مخصوص مقامات ہوتے ہیں، وہیں قربانی کی جاتی ہے اور ہمارے عرف ورواج کی طرح ایسا بھی نہیں ہوتا کہ جانور پہلے خرید لیا جائے، اس کی قیمت ادا کرلی جائے، اگر دیکھ بھال اور چارہ وغیرہ کے لیے ملازم کی ضرورت ہو تو ایک متعین اجرت پر اس کا انتظام کر لیا جائے۔ اسی طرح ذبح کرنے اور گوشت وغیرہ کاٹنے کے لیے قصائی متعین اجرت پر لے لیا جائے۔
بلکہ وہاں یہ نظام ہے کہ جو جانور آپ متعین کریں گے اسے وہ ذبح کرلیں گے اور اس کے بعد اس کے گوشت کا وزن کریں گے اور فی کلو گوشت کی ایک متعین رقم کے اعتبار سے کل گوشت کی جو رقم ہوگی وہ آپ کو بتلا کر آپ سے وصول کرلیں گے۔ مثلا: عام دنوں میں بازار سے ملنے والا گوشت فی کلو اگر چار سو روپیہ کا ہے تو وہ فی کلو چھ سو روپیہ لیں گے اور یہ جو فی کلو پر دو سو روپیہ اضافی لے رہے ہیں اسے جانور کی دیکھ بھال، چارہ پانی، ذبح اور کٹائی وغیرہ کی اجرت کی مد میں وصول کرتے ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ:
1۔ اس طرح قربانی کروانے سے قربانی ادا ہوجاتی ہے یا نہیں؟
2۔ اگر ہوجاتی ہے تو اس میں کسی قسم کی کوئی کراہت تو نہیں؟
3۔ اگر قربانی نہیں ہوتی یا اس میں کراہت آتی ہے تو اس کی وجوہات کیا ہیں؟
4۔ نیز اگر قربانی نہیں ہوتی یا اس میں کسی قسم کی کراہت آتی ہے تو اسے درست کرنے اور کراہت دور کرنے کا صحیح شرعی طریقہ کیا ہوگا؟
وضاحت: پوچھنے پر معلوم ہوا کہ جانور خریدنے کا طریقہ یہ ہوتا ہے کہ قربانی کرنے والا قصاب(قصائی) سے بات کرتا ہے اور قصاب جانور خرید کر متعین کردیتا ہے، پھر بسا اوقات تو خریدار قربانی کے وقت تک اپنے جانور کو نہیں دیکھ پاتا اور کبھی بعض لوگ چوری چھپے اپنے جانور کو دیکھ پاتے ہیں۔

جواب

صورت مسئولہ میں قربانی درست نہیں ہوئی۔ اس کا جائز طریقہ یہ ہے کہ قربانی کرنے والا قصاب کو اپنا وکیل بنائے کہ وہ قربانی کرنے والے کی طرف سے جانور خریدے اور اس میں جانور کی قیمت بھی متعین کردی جائے اور اگر قصاب اس وکالت کی اجرت لینا چاہے تو وہ بھی لے سکتا ہے، البتہ اجرت متعین کرلی جائے اوراس کے علاوہ جو اخراجات ہوں وہ بھی متعین کردیے جائیں کہ مثلا: قصائی اور صفائی کے انتظام کرنے والی کی اجرت وغیرہ۔لہٰذا اس طرح سے معاملہ کیا جائے۔

لما في بدائع الصنائع:
’’(ومنها) أن يكون المبيع معلوما وثمنه معلوما علما يمنع من المنازعة. فإن كان أحدهما مجهولا جهالة مفضية إلى المنازعة فسد البيع‘‘.(كتاب البيوع، فصل في شرائط الصحة في البيوع: ۱۵۶/۵، دار الكتب العلمية)
وفي الهندية:
’’وفي الزيادات إذ قبض المشترى المبيع في البيع الفاسد من غير إذن البائع ونهية فإن قبضه في المجلس يصح القبض استحسانا ويثبت الملك فيه للمشترى وإن قبض بعد الافتراق عن المجلس لا يصح قبضه لا قياسا ولا استحسانا ولا يثبت الملك فيه للمشتري وإذا أذن له بالقبض فقبض في المجلس أو بعد الافتراق عن المجلس صح قبضه ويثبت الملك قياسا واستحسانا‘‘.(كتاب البيوع، الباب الحادي عشر في أحكام البيع الغير الجائز: ۱۴۷/۳، دار الفكر)
وفي الشامية:
’’(وإن) بشراء شئ (بغير عينه فالشراء للوكيل إلا إذا نواه للموكل) وقت الشراء (أو شراه بماله) أي بمال الموكل. (قوله فالشراء للوكيل) المسألة على وجه كما في البحر.
وحاصلها أنه إن أضاف العقد إلى مال أحدهما كان المشترى له، ومن أضافه إلى مال مطلق فإن نواه للآمر فهو له وإن نواه لنفسه فهو له....‘‘(كتاب الوكالة، باب الوكالة بالبيع والشراء: ۲۸۸/٨، رشيدية) .فقط.واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب.

فتویٰ نمبر: 267/ 168

دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی