قربانى کا جانور تبدىل كرنے كا حكم

قربانى کا جانور تبدىل كرنے كا حكم

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ایک شخص پر قربانی واجب ہے وہ اپنی واجب قربانی ادا کرنے کے لیے ایک گائے لے آیا، لیکن بطور نفلی قربانی کے لیے ایک بکری بھی خریدی، ارادہ تھا کہ گائے کی بھی قربانی کرنی ہے، لیکن بچے اب ضد کر رہے کہ بکری قربانی کر دیں اور گائے چھوڑ دیں اسے پالیں گے، کیا ایسا کرنا جائز ہے؟

جواب

واضح رہے کہ جب کوئی صاحب نصاب شخص قربانی کے لیے جانور خریدے، اور اس کی جگہ دوسرا جانور تبدیل کرنا چاہتا ہے، تو اس طرح کرنا مکروہ تنزیہی ہے، اور اگر دوسرے جانور کی قیمت پہلے جانور سے کم ہے تو ان کے مابین تفاوت(قیمت کاجو فرق ہے) کے بقدر زائد قیمت کو صدقہ کرنا واجب ہے۔

وفي البدائع:
’’وأما الذي يجب على الفقير دون الغني فالمشتري للأضحية إذا كان المشتري فقيرا بأن اشترى فقير شاة ينوي أن يضحي بها، وإن كان غنيا لا يجب عليه بالشراء شيء بالاتفاق‘‘. (كتاب التضحية، 6/275، ط: رشيدية)
 وفي التاتار خانية:
’’فهل تصير الأضحية واجبة بالشراء بنية الأضحية، فإن كان المشترى غنيا لا تصير واجبة الأضحية بإتفاق الروايات كلها حتى لو باعها، واشترى أخرى.
وأجمعوا على أنها لا تصير واجبة الأضحية بمجرد النية بأن نوى أن يضحى هذه الشاة ولم يذكر بلسانه شيئا‘‘. (كتاب الأضحية، 411/7، ط: فاروقية)
وفي الشامية:
’’وجه الاستحسان أنها تعينت للذبح لتعينها للأضحية، حتى وجب عليه أن يضحي بها في أيام النحر أي لو كان المضحي فقيرا نهاية. ويكره أن يبدل بها غيرها أي إذا كان غنيا نهاية‘‘. (كتاب الأضحية، 545/9، ط: رشيدية)
وفي البدائع:
’’وسواء كانت الثانية مثل الأولى في القيمة أو فوقها أو دونها لما قلنا غير أنها إن كانت دونها في القيمة يجب عليه أن يتصدق بفضل ما بين القيمتين لأنه بقيت له هذه الزيادة سالمة من الأضحية فصار كاللبن ونحوه‘‘. (كتاب التضحية، فصل في كيفية الوجوب، 290/6، ط: رشيدية).فقط.واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب.

فتویٰ نمبر:146/ 169

دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی