فقہ جعفریہ اختیار کرنے پر نکاح کا حکم

فقہ جعفریہ اختیار کرنے پر نکاح کا حکم

سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ میں ایک سنی حنفی مسلک سے تعلق رکھنے والی عورت ہوں، میرا اور میرے خاوند کا ازدواجی تعلق اچھا ہے، مگر شادی کے کچھ عرصے کے بعد میرے شوہر نے فقہ جعفریہ کو قبول کرلیا، آج ہماری شادی کو بارہ سال مکمل ہوچکے ہیں، الحمد للہ! اور میرے شوہر نے مجھے کبھی مذہب کے معاملے میں زور زبردستی نہیں کی، ہماری دو معصوم بچیاں بھی ہیں، ایک بات گوش گزار اور کردوں کہ میرے شوہر مکمل طور پر اللہ کی توحید کے قائل ہیں اور یہ کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو خدا کا آخری نبی ورسول مانتے ہیں اور یہ کہ تمام ازواج مطہرات کو امہات المؤمنین کہہ کر مخاطب کرتے ہیں، فرق صرف یہ ہے کہ وہ آلِ رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی نہایت ہی عزت وتوقیر کے قائل ہیں، اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اہل بیت اطہار کی عزت کرتے ہیں۔
اب سوال پوچھنا یہ تھا کہ ہمارے نکاح کی شرعی حیثیت کیا ہے؟

جواب

واضح رہے کہ اگر کوئی شخص قرآن مجید میں تحریف، حضرت علی رضی اللہ عنہ کے خدا ہونے، یا جبرئیل امین سے وحی پہنچانے میں غلطی ہونے کا عقیدہ رکھتا ہو، یا حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی صحابیت کا انکار کرتا ہو، یا حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا پر تہمت لگاتا ہو، تو ایسا شخص دین اسلام کے بنیادی عقائد کی مخالفت کی وجہ سے دائرہ اسلام سے خارج ہوگا اور اس کا نکاح بھی برقرار نہیں رہے گا۔
لہذا صورت مسئولہ میں اگر صورت حال وہی ہے جوکہ سوال میں مذکور ہے، تو محض اہلِ بیت کے ساتھ زیادہ محبت اور قلبی لگاؤ رکھنے کی وجہ سے نکاح پر کوئی اثر نہیں پڑے گا، بشرطیکہ آپ کے شوہر کے عقائد کفریہ حد تک نہ پہنچے ہوں۔
البتہ آپ اپنے شوہر کو مناسب طریقے سے سمجھاتی رہیں کہ وہ اس فرقے سے علیحدگی اختیار کرلیں، تاکہ آئندہ آنے والی نسلوں کے عقائد خراب نہ ہوں، نیز اپنے شوہر کے لیے دعا بھی کرتی رہا کریں اور اللہ تعالی سے اس معاملہ میں عافیت بھی طلب کریں۔
لما في رد المحتار:
’’قال في البحر: وینبغي أن من اعتقد مذھبا یکفر بہ، إن کان قبل تقدم الاعتقاد الصحیح فھو مشرک، وإن طرأ علیہ فھو مرتد، وبھذا ظہر أن الرافضي إن کان ممن یعتقد الألوھیۃ في علي، أو أن جبریل غلط في الوحي، أو کان ینکر صحبۃ الصدیق، أو یقذف السیدۃ الصدیقۃ فھو کافر لمخالفتہ القواطع المعلومۃ من الدین بالضرورۃ، بخلاف ما إذا کان یفضل علیا أو بسب الصحابۃ فإنہ مبتدع لا کافر، کما أوضحتہ في کتابي تنبیہ الولاۃ والحکام علی أحکام شاتم خیر الأنام أو أحد أصحابہ الکرام علیہ وعلیھم الصلاۃ والسلام‘‘.(کتاب النکاح، فصل في المحرمات: ٤/ ٦٣٤: رشیدیۃ)
وفي البحر:
وفي شرح الوجیز:
’’ کل مذھب یکفر بہ معتقدہ فھو یحرم نکاحھا لأن اسم المشرک یتناولھم جمیعا‘‘.(کتاب النکاح، فصل في المحرمات، ٣/ ١٨١: رشیدیۃ).
وفي حاشیۃ ابن عابدین:
أقول: نعم نقل في البزازیۃ عن الخلاصۃ أن الرافضي إذا کان یسب الشیخین ویلعنھما فھو کافر، وإن کان یفضل علیا علیھما فھو مبتدع اھـ. وھذا لا یستلزم عدم قبول التوبۃ علی أن الحکم علیہ بالکفر مشکل لما في الاختیار، اتفق الأئمۃ علی تضلیل أھل البدع أجمع وتخطئتھم، وسب أحد من الصحابۃ وبغضہ لا یکون کفرا، لکن یضلل إلخ..... لا شک في تکفیر من قذف السیدۃ عائشۃ رضي اللہ تعالی عنھا، أو أنکر صحبۃ الصدیق، أو اعتقد الألوھیۃ في علي، أو أن جبریل غلط في الوحي، أو نحو ذلک من الکفر الصریح المخالف للقرآن، ولکن لو تاب تقبل توبتہ، ھذا خلاصۃ ما حررناہ في کتابنا تنبیہ الولاۃ والحکام‘‘.(کتاب الجھاد، باب المرتدۃ: ٥/ ٣٥٤، ٣٥٣: رشدیۃ).فقط.واللہ تعالیٰ أعلم بالصواب.
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
فتویٰ نمبر:174/98